• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

نیا اپوزیشن الائنس: تفصیلات مخدوم احمد محمود کے ذریعے طے ہوئیں

کیا وزیراعلیٰ عثمان بزدار اب اپنی روایتی حکمرانی چھوڑ کر جارحانہ انداز اپنانے کی حکمت عملی اختیار کرچکے ہیں۔یہ سوال ان کے دورۂ گوجرانوالہ کے بعد زیادہ شدت سے سامنے آرہا ہے۔ یہاں انہوں نے غفلت برتنے پر ڈپٹی کمشنر کو تبدیل کیا اور گوجرانوالہ ڈرگ اتھارٹی کے ڈی جی کو معطل کردیا ، خیال یہ تھا کہ ڈی پی او پاکپتن کے واقعہ کے بعد شاید عثمان بزدار اب اس قسم کے فوری تبادلوں سے احتیاط برتیں گے مگر اب لگتا ہے کہ وہ خود کو ایک نئے چیلنج کے لئے تیار کرچکے ہیں اور آنے والے دنوں میں پنجاب کی بیوروکریسی کے لئے شاید وہ زیادہ سختی سے اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرائیں ۔ اصل انتظار تو ان کا جنوبی پنجاب میں ہوگا جہاں بری گورننس ایک معمول کی بات ہے اور بیوروکریسی خاصی بے لگام نظر آتی ہے ۔ جس قسم کے الزامات پر گوجرانوالہ میں افسروں کو تبدیل کیا گیا ہے وہ سب چیزیں تو جنوبی پنجاب کے ہر ضلع میں پوری خرابیوں کے ساتھ موجود ہیں ۔ خود ملتان ایک ایسا شہر ہے جہاں شہری سہولیات تمام اداروں کی موجودگی کے باوجود دستیاب نہیں ہیں۔

وزیراعلیٰ نے صفائی کی ناقص صورتحال کی وجہ سے ڈی سی گوجرانوالہ کو تبدیل کیا لیکن اگر وہ ملتان آئیں تو انہیں قدم قدم پر ایسے مناظر نظر آئیں گے جو کسی بھی بڑے شہر کے لئے شرم کا باعث ہیں۔ ملتان میں ویسٹ مینجمنٹ، ہارٹیکلچر ، واسا اور ضلعی انتظامیہ کے تمام ادارے موجود ہونے کے باوجود شہر کی حالت کسی گندے گائوں کا منظر پیش کررہی ہے۔ چند بڑی سڑکوں اور پوش علاقوں کے علاوہ پورا شہر آلودگی اور گندگی سے بھرا پڑا ہے۔ سو شہری یہ توقع کررہے ہیں کہ وزیراعلیٰ کسی دن اچانک وقت نکال کر انتظامیہ کو بتائے بغیر ملتان پہنچیں گے اور اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ اس شہر کا ناک نقشہ انتظامیہ کی غفلت نے کس حد تک بگاڑ دیا ہے۔بگاڑ تو اس وجہ سے بھی موجود ہے کہ ابھی تک حکومت عوام کو مہنگائی اور ہر روز بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نجات نہیں دلا سکی، ’’ مرے کو مارے شاہ مدار ‘‘ کے مصداق 23 جنوری کو نیا منی بجٹ پیش کیا جارہا ہے ، حیرانی اس بات پر ہے کہ چھ ماہ سے بھی کم عرصہ میں یہ تیسرا منی بجٹ دینے والی حکومت کے معاشی منیجرز ابھی تک اپنا فیصلہ ہی درست نہیںکرسکے۔ وزیر خزانہ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ منی بجٹ سے عام آدمی کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ بجٹ پیش کریں ور اس کا اثر عام آدمی پر نہ ہو، کیونکہ ہماری معیشت کا جو نظام ہے اس کا تو سارا انحصار ہی عام آدمی پر ہے۔ سیلز ٹیکس کا سارا بوجھ نچلے طبقے پر منتقل ہوتا ہے اور یہ بوجھ اس قدر اذیت ناک ہے کہ لوگ غربت کے ہاتھوں خود کشی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت تمام تر دعوئوں کے باوجود عام آدمی کو کوئی ایک معاشی ریلیف بھی نہیں دے سکی۔

بلند بانگ دعوے تو بلاول بھٹو زرداری بھی کررہے ہیں اس حقیقت کے باوجود کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی عدم مقبولیت کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے اور ایسے کوئی آثار نہیں ہیں کہ اگر آج بلاول بھٹو زرداری احتجاج کی کال دیں تو عوام سڑکوں پر نکل آئیں مگر انہوں نے حیدر آباد کے جلسہ میں دعویٰ بھی کیا ہے کہ اگر حکومت انتقامی کارروائیوں سے باز نہ آئی تو اسلام آباد پرچڑھائی کی جائے گی ۔ ایسی سیاسی بیان بازی سے کیا پیپلزپارٹی کے تن مردہ میں جان پڑ جائے گی جبکہ پنجاب کی یہ حالت ہے کہ پیپلزپارٹی کو ایک چھوٹا سا جلسہ کرنے کے لئے بھی لوگ دستیاب نہیں ہوتے۔

بہرحال کوششیں رنگ لے آئیں اور متحدہ اپوزیشن الائنس کیلئے جو پودا مولانا فضل الرحمن نے لگایا تھا وہ پھلتا پھولتا نظر آنے لگا ہے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نے میں جو بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے رابطے جاری تھے وہ بالآخر کامیاب ہوگئے ہیں اور دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اپوزیشن کی دیگر چھوٹی جماعتوں سے مل کر ایک گرینڈ الائنس بنانے کا اعلان کردیا ہے ،جو سابق صدر آصف علی زرداری ، میاں شہباز شریف ، بلاول بھٹو زرداری کی موجودگی میں معرض وجود میں آچکا ہے ، تاہم پچھلے دنوں سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود نے کوٹ لکھپت جیل میں میاں نواز شریف سے جو ملاقات کی ہے ، ذرائع کے مطابق انہیں آصف علی زرداری کا یہ پیغام پہنچایا گیا ہے کہ اگروہ رضامند ہوجائیں تو قومی اسمبلی میں ان ہاؤس تبدیلی لائی جاسکتی ہے ،اس کے لئے ذرائع کے مطابق اختر مینگل کا نام انہیں دیا گیا ہے ،کیونکہ وہی ایک ایسے حکومت کے اتحادی ہیں ،جنہیں فی الوقت توڑا جاسکتا ہے اور ان کے ٹوٹنے سے حکومت اپنی عددی برتری سے محروم ہوسکتی ہے ،یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ اخترمینگل کے وزیر اعظم کے عہدے کے لئے اتفاق کی صورت میں بلوچستان کے تمام ناراض گروپوں کی حمایت بھی حاصل ہوسکتی ہے ،اس سلسلہ میں آصف علی زرداری کی میرحاصل بزنجو ، اختر مینگل اور ثناءاللہ زہری سے ملاقاتوں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے ،دیکھتے ہیں کہ یہ اتحاد جس مقصد کے لئے قائم ہوا ،کیا متحدہ اپوزیشن وہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے گی اور کیا مقتدر قوتیں اس ان ہاؤس تبدیلی کی اجازت دیں گی ،یہ سوال اس وقت سیاسی حلقوں میں گردش کررہا ہے ،لیکن حکومت کسی پریشانی یا دباؤ میں دکھائی نہیں دے رہی ۔تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں کیا حکومت کسی بحران کا سامناکرنے کے لئے تیار ہے ،کیا اس میں اتنی سکت ہے کہ وہ ایک گرینڈ اپوزیشن سے نمٹ سکے ؟ کیا قومی اسمبلی میں معمولی اکثریت سے حکومت اپنا اقتدار قائم رکھ سکتی ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ حکومت کی بری معاشی پالیسیوں کی وجہ سے عوام میں جو بے چینی پھیل رہی ہے کیا صرف عمران خان کی موجودگی اس کاتدارک ثابت ہوسکتی ہے ؟یہ سب باتیں ایک منظرنامے کی نشاندہی کررہی ہیں جس میں کئی الجھاؤ اور کئی بحران سر اٹھا سکتے ہیں ،دیکھنایہ ہے کہ 2019ء اپنے جلو میں کیا کچھ لایا ہے اور سیا سی لحاظ سے اس کے پردہ زنگاری سے کیا نکلتا ہے ؟

ادھر ملتان میں نئے سیکرٹریٹ کے قیام کے لئے بظاہر کوششیں پھر سرد خانے میں جاتی نظر آرہی ہیں ابھی تک سیکرٹریٹ کے لئے جگہ کا انتخاب نہیں کیا جاسکا اور نہ ہی جو ابتدائی کام کئے جانے تھے ان پر کوئی پیشرفت ہورہی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس معاملہ میں بھی خود تحریک انصاف کے اندر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر جب سے بہاولپور صوبہ کا معاملہ گرم ہوا ہے یہ کوشش بھی کی جارہی ہے کہ کسی طرح اس سیکرٹریٹ کو ایسی جگہ بنایا جائے ملتان اور بہاولپور سے یکساں فاصلے پر ہو جلہ ارائیں اور لودھراں جیسے علاقوں پر بھی غور کیا جارہا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک ایسی بد مزگی ہوگی کہ جسے آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کے مترادف قرار دیا جائے گا۔ اگر اس قسم کا فیصلہ کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ملتان کے رہنے والوں کو 40 کلو میٹر کا سفرکرکے سول سیکرٹریٹ جانا پڑے گا، اس طرح بہاولپور کے لوگ بھی 40 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے وہاں پہنچیں گے ، جہاں تک ڈیرہ غازی خان کا تعلق ہے تو اس کا سفر اور بھی زیادہ ہوجائے گا ، ایسے معاملات میں سیاسی ٹانگ اڑانے والے عوام کے کسی بھی طرح دوست نہیں ہوسکتے، ملتان جیسے بڑے شہر کو چھوڑ کر مضافات میں سیکرٹریرٹ بنانے کی تجاویز ایک ایسی حماقت کو ظاہر کرتی ہیں جو کسی بھی طرح حقائق سے لگا نہیںکھاتیں۔ کیا جولائی تک یہ سیکرٹریٹ قائم ہوجائے گا ؟ یا اس کا حال بھی جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے اس دعوے کے مصداق ایک ایسے ٹرک کی بتی ثابت ہوگا کہ جو کبھی ہاتھ نہیں آتی۔

تازہ ترین
تازہ ترین