• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان کا پہلا مسکن غار تھا، جہاں سے نکل کر اس نےگھاس، تنکوں اور بانس سے جھونپڑ ی بنائی اور بعد میں کچی مٹی اور گارے سے مکان بننے لگے۔ اس کے بعد پکی سرخ اینٹیں سامنے آئیں، پھر کنکریٹ اور سیمنٹ بلاک آئے۔ آج بلاکس کی بے شمار اقسام متعارف کروائی جاچکی ہیں۔ ہوا، مٹی اور پانی کے اثرات سے بھرپور ماحول دوست اینٹیں بن رہی ہیں۔لکڑی اور اسٹیل کا شاندار استعمال ترویج پارہا ہے۔کنسٹرکشن اسمبلنگ ٹرینڈ بن چکا ہے، ایک ایک ستون تیار کرکے فٹ کیا جاتا ہے۔ تعمیراتی صنعت میں تھری ڈی پرنٹرز نےیہ عمل اورآسان کر دیا ہے۔سپر جیکٹس بھاری اینٹوں کا بوجھ اٹھاکرمزدوروں کے لیے سپرمین کا کردار ادا کررہی ہیں۔ مکسچر مشین نے رفتار بڑھا دی ہے، جس سے مکان کی فوری تعمیر ممکن ہوگئی ہے ۔آئیے تعمیر سازی میں رائج اہم بلڈنگ مٹیریلز کا جائزہ لیتے ہیں۔

کنکریٹ

عمارت سازی میں کنکریٹ بنیادی مٹیریل ہے،جس کا سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ 50فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے کی وجہ سے آلودگی کا موجب بن رہا ہے۔ اس لیے آج کل کنکریٹ بلاکس میں ایسے اجزا شامل کیے جاتے ہیں، جو درجہ حرارت کو معتدل رکھنے میں کارگر ہوتے ہیں۔

لکڑی

کسی بھی عمارت کو لکڑی سے بنانے کا فن بہت قدیم ہے۔ جدید فرنیچر سازی اور ستونوں کی تراش خراش انتہائی نفیس ہوگئی ہے۔ بلند و بالا عمارتیں ہوں یا کوئی بھی مکان ہر جگہ لکڑی کی کھڑکیوں، بالکونیوں اور جھروکوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ لکڑی کا دروازہجتنا دیدہ زیب لگتا ہے، المونیم یا لوہے کا دروازہ اتنا’شاہی لُک‘ نہیں دیتا۔

اسٹیل

اسکائی لائن یا آسمان کو چھوتی بلند و بالا عمارتوں کا وزن سہارنے کے لیے اسٹیل کا استعمال متعارف ہوا۔ آج ہر فلک بوس عمارت سازی کا یہ ناگزیر حصہ بن چکا ہے۔ یہ کسی بھی عمارت کی خوبصورتی میں بھی چار چاند لگاتا ہے۔ اسی اسٹیل سے زلزلہ پروف ڈمپرز بنائے جاتے ہیں۔ اسٹیل آج کل لچک کے اس بنیادی اصول پر بنایا جاتا ہے کہ کمر ٹیڑھی بھی ہوجائے تو جسم کی عمارت ٹوٹنے نہ پائے۔ اسٹیل کوعمارت کی ریڑھ کی ہڈی جانیے،جو زلزلے کے جھٹکوں سے جھول کر سمٹ اورسکڑ تو سکتی ہے لیکن تڑخ کرکے ٹوٹ نہیں سکتی۔

پلاسٹک

پلاسٹک کا استعمال برتنوں،فرنیچر میں تو کمال دیکھا،لیکن اب تھری ڈی پرنٹنگ نے پلاسٹک کے دروازوں اور کھڑکیوں کی راہ بھی نکالی ہے۔امریکن کیمسٹری کونسل نے بائیوپلاسٹکس آرکیٹیکچر کے ماحول دوست اقدام کی توثیق کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ اس کی تیاری میں ہمیںتانبے کے منفی اثرات کو صفر کرنا ہوگا۔پلاسٹک کے مکانات بھی بنائے جارہے ہیں۔بائیو پلاسٹک منفی اثرات سےدور فولاد سے بھی کہیں زیادہ مؤثر ہے۔ اس میںزنگ نہیں لگتا،اس لیےساحلوں پر پلاسٹک کے مکانات کو مستقبل کے فن تعمیر سے موسوم کیا جارہا ہے۔

ٹیکسٹائل

سننے میں تو بہت عجیب لگ رہا ہوگا کہ’’عمارتیں بھی لباس پہنتی ہیں‘‘۔ تاہم امریکا میں ایسےtensile structures زیر استعمال ہیں جہاںفیبرک کاسٹنگ کی جاتی ہے۔کپڑےثقافتی عمارتوں میں وافر مقدار میں استعمال کیے جارہے ہیں۔ شہتیروں،کھڑکیوں اور دیواروں کو خوبصورت کپڑے سے ڈھانپ کر آرٹ بلڈنگ کے جمال دکھائے جاتے ہیں۔کپڑا ریشم کا ہو یا کاٹن کا،اس کی اہمیت کو فراموش کرنا کارِ دشوار ہے۔

شیشہ

کہیں گلاس ٹاورز بن رہے ہیں تو کہیں شیشے کی کاریگری سے فرنیچر۔’’فیکیڈ ایلی منٹس‘‘ کوآشکار کرنے کے لیے شیشے کا استعمال اہم جانیں۔دنیا بھر میں بلند و بالا عمارتیں شیشے بنائی جارہی ہیں، جو نہ صرف خوبصورت لگتی ہیں بلکہ مضبوط بھی ہوتی ہیں۔ کارپوریٹ اداروں میں صاف و شفاف شیشے کا استعمال معمول بن چکا ہے۔

اینٹ

تعمیراتی صنعت میں مختلف ڈیزائن سے تراشی گئی اینٹوں سے دیوار کی ایسی دیدہ زیب چنائی کی جاتی ہے کہ یقین ہی نہیں ہوتا کہ ایک ایک اینٹ جوڑ کر خوابوں کا محل بنایا گیا ہے۔ برِک ڈیویلپمنٹ ایسوسی ایشن امریکا اینٹوں کے استعمال پر رہنمائی مہیا کرتی ہے۔

کیولر(Kevlar)

بلند و بالا عمارتیں تعمیر کرنے والے کیولر (کاربن فائبر، فوٹو وولٹیک سیلز اور نامیاتی مواد) کو نہیں بھول سکتے، جومیٹل باڈی آرمر سے زیادہ مضبوط ہے۔ اسٹیل سے پانچ گنا مضبوط اور لکچدارکاربن فائبر سے مختلف اشکال کے تعمیراتی مٹیریل مثلاً راڈز کو عمدگی سے بنایا جاسکتا ہے۔ فوٹو وولیٹک ٹیکنالوجی میں انقلاب کے باعث پھیلنے اور سکڑنے والی خلیہ نما بلند عمارات میں اس کا استعمال ماحول دوست سبز عمارت سازی کا پیش خیمہ مانا جاتا ہےجب کہ نامیاتی مواد نےآرگینک اسٹرکچرز سے آلودگی کے اثرات کو صفر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

بانس،تنکے اور کچرا

فطرت شناس مکانات میں بانس اور تنکوں کا شاندار استعمال انسان کی عمارتی تہذیب کی علامت ہے۔تنکوں سے بنائے آشیانے ہوا، مٹی اور پانی سے دوستی کی لازوال مثال ہیں۔ استعمال شدہ پلاسٹک بوتلوں سے بنے گھر ہوں یا استعمال شدہ مٹیریل کو دوبارہ قابل استعمال بنانا، ان کے لیے عمارت گر ہاتھ چاہئیں جواپنے فن سے پتھر میں جان ڈال دیتے ہیں۔

تازہ ترین