• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان حالات میں جب ملک توانائی کے سنگین اور مسلسل بحران کا شکار ہے اور ہر سال گیس صارفین کی تعداد میں تین لاکھ کا اضافہ بھی ہو رہا ہے اس کے مقابلے میں نئے ذخائر کی دریافت پر جمود طاری ہے اور دستیاب ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ صوبہ سندھ سے آنے والے اپریل، مئی کے مہینوں میں سوئی جتنی بڑی مقدار کا ذخیرہ دریافت ہونے کے روشن امکانات کی خوشخبری ملک و قوم کے لئے ہوا کا تازہ جھونکا ہے۔ گیس کی تلاش ایک صبر آزما کام ہے جس میں کامیابی بہت بڑا کارنامہ ہو گا لیکن بہت سے ممالک اس آزمائش میں کامیاب ہوئے ہیں اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ وطن عزیز میں روزانہ کھپت 660ملین کیوبک فٹ اور ملک کو مجموعی طور پر چار بلین کیوبک فٹ کی کمی کا سامنا ہے۔ تیل و گیس کی تلاش کا کام مزید تیز تر کیا جانا چاہئے۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان گیس سمیت بہت سے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن انہیں بروئے کار لانے میں 71برس کا عرصہ کم نہیں ہے جسے ہم نے گنوا دیا اور تیل و گیس کے ذخائر گنجائش کے مطابق نہ دریافت کر سکے۔ رہی سہی کسر 20سال کے عرصہ پہ محیط دہشت گردی نے پوری کر دی، اب رفتہ رفتہ حالات ساز گار ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے سے شروع کیے گئے منصوبوں کے ساتھ ساتھ نئے پروجیکٹ بھی تشکیل دیئے جائیں۔ اس وقت روس دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے جہاں قدرتی گیس کے سب سے زیادہ ذخائر دریافت ہوئے ہیں، اس کے بعد ایران کا نمبر آتا ہے۔ اس وقت سندھ میں قدرتی گیس کا 70فیصد موجود ہے، تاہم بلوچستان اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ملک میں تیل و گیس کی وزارت اور اس کے ذیلی ادارے بھی اپنا کام کر رہے ہیں اور ماہرین کی بھی کمی نہیں۔ ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مربوط سسٹم کے تحت نئی ترجیحات کا تعین ہونا چاہئے اور تیل و گیس کی ضروریات پوری کرنے کیلئے تمام تر کوششیں بروئے کار لانی چاہئیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین