• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت اور آزادی کیلئے عدلیہ کا کردار بہت اہم رہا ہے، اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخی اوراق کو الٹ پلٹ کیا جائے تو بہت سے مقامات ایسے آتے ہیں جب فخر سے سر بلند ہوتا ہے مگر کچھ مقامات ایسے بھی آتے ہیں جہاں سوائے ندامت کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ حالات کی ان تمام گردشوں میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کو نہیں بھلایا جا سکتا، جہاں مسائل کے حل کیلئے بہت سوچا بھی گیا اور جہاں چند برس ایسے بھی آئے کہ سلطان راہی کی فلمیں یاد آ گئیں، پیپلز پارٹی نے اپنا عرصہ اقتدار انہی بڑھکوں میں گزار دیا۔ اب خیر سے چوہدری افتخار سیاست دان ہیں، ان کی پارٹی کبھی جمہوریت یا آزادی کیلئے سامنے نہیں آ سکی۔ شاید اس کی بڑی وجہ پارٹی کا ’’بڑا‘‘ ہونا ہو۔ جسٹس (ر) افتخار چوہدری کی بحالی کے سفر میں زندگی کے تمام شعبوں کے افراد نے جدوجہد کی تھی، اس میں سیاسی کارکنوں کے علاوہ وکلاء، صحافی، شاعر، دانشور، فنکار اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندے پوری سول سوسائٹی سمیت نظر آئے۔ مجھے شاہراۂ دستور پر وہ منظر کبھی نہیں بھولتا، جب اعتزاز احسن کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی گئی، جب زمرد خان کا بازو ٹوٹ گیا اور پھر جب مجھ خاکسار کا سر پھٹ گیا، مجھے حامد میر اور اسلم خان نے اٹھا کر ایمبولینس میں ڈالا۔ وہ منظر بھی تاریخ کی آنکھ نے محفوظ کیا جب فرخ نواز بھٹی آمر کے بنائے ہوئے وزیراعظم کی گاڑی کے سامنے لیٹ گیا اور گولی کھانے کیلئے تیار ہو گیا، کچھ وزراء نے اس نوجوان صحافی کو سمجھایا، پھر اس نے اپنا احتجاج ختم کیا، مجھے یاد ہے کہ میں زخمی ہو کر اسپتال پہنچا تو محسن بیگ میرے ساتھ تھے، ڈاکٹرز میرا علاج کر رہے تھے اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور محترمہ کلثوم نواز مجھ سے ٹیلی فون پر بات کرنا چاہتی تھیں، خیر دونوں سے بات ہوئی، اسی شام میں خون آلود شرٹ کے ساتھ ایاز امیر کے پروگرام میں شریک ہوا، اگلے دن احتجاج میں حصہ بھی لیا، اسپتال میں کئی دن گزر گئے لوگوں نے اس دوران بہت محبت دکھائی۔ اس سے کچھ دن پہلے چیف جسٹس کی بحالی کے شوقین ڈاکٹر اسرار شاہ ٹانگوں سے محروم ہو گئے تھے، نرگس فیض ملک کی زندگی مشکل سے بچی تھی۔ خیر یہ زمانہ گزر گیا، قوم کو افتخار چوہدری سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں مگر انہوں نے تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ وہ بیٹے کے راستے دولت کی محبت میں الجھ کر رہ گئے تھے، آج میں سوچتا ہوں اور پھر پورے یقین سے کہتا ہوں کہ پوری زندگی میں اگر کاش ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ میں نے افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں حصہ لیا۔ بس یہی کاش میرے لئے لمحۂ ندامت ہے ورنہ زندگی میں جو کیا اس سے مطمئن ہوں۔

یہ باتیں مجھے اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار عدالت سے رخصت ہو رہے ہیں، آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گےتو نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی آمد آمد ہو گی۔ ثاقب نثار صاحب کا عہد کافی شورش زدہ رہا، انہوں نے مشکل حالات میں فیصلے کئے، کئی تاریخی مقدمات بھی سامنے آئے۔ نئے آنے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اپنے فیصلوں کے حوالے سے کافی مشہور ہیں، ان کے بارے میں یہی سنا ہے کہ وہ خود کم بولتے ہیں مگر ان کے فیصلے بہت بولتے ہیں۔ چار کتابوں کے مصنف جسٹس آصف سعید کھوسہ اکیس دسمبر 1954ء کو ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے، ملتان سے میٹرک کرنے کے بعد ٹیلنٹ اسکالر شپ لیکر لاہور پہنچے، گورنمنٹ کالج لاہورپہنچ کر راوین بن گئے پھر چار سال یہیں گزرے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا، قانون کی زیادہ تعلیم ان کی بیرونی دنیا میں ہوئی، اس حوالے سے کیمبرج یونیورسٹی انگلستان کا تذکرہ بھی بڑا ضروری ہے، جسٹس کھوسہ بہائو الدین زکریا یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، نیپا اکیڈیمی اور جوڈیشل اکیڈیمی میں بھی پڑھاتے رہے، یعنی وہ زندگی میں مصنف، معلم اور منصف کے روپ میں نظر آئے، اس میں یقیناً طالب علمی کا زمانہ اور وقتِ وکیلانہ بھی آیا ہو گا۔

جمہوریت اور آزادی کے حوالے سے مجھے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی تازہ شادی یاد آ رہی ہے۔ اس شادی میں دلہا آصف علی زرداری تھے، میں دبئی میں ہونے کی وجہ سے اس شادی میں شریک نہیں ہو سکا، میں نے باراتیوں میں انتہائی نفیس خاتون سیاست دان شیری رحمٰن کو بھی دیکھا۔ البتہ میں اس منظر کو دیکھنے سے محروم رہا ہوں جب میاں شہباز شریف ’’گھسیٹ‘‘ کر آصف علی زرداری کو لا رہے تھے، تمام ٹی وی چینلز وہ کھمبا بھی دکھانے میں ناکام رہے جو شہباز شریف نے آصف علی زرداری کو ’’لٹکانے‘‘ کیلئے تیار کیا تھا۔ خیر سنا ہے کہ دروازے سے باہر نکل کر شہباز شریف نے آصف علی زرداری کا استقبال کیا۔ ملاقات میں کیا ہوا، اس کا تو مجھے پورا علم نہیں البتہ شادی کا اعلان آصف علی زرداری نے کیا۔ ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب کا موقف سامنے آیا ہے کہ ’’زرداری صاحب سے ملنے کا مقصد عوام اور ملک کی بہتری ہے‘‘ مجھے اس ’’کامیاب‘‘ مرحلے پر میاں نواز شریف اور ان کے ہمنوائوں کے وہ سارے ارشادات یاد آ رہے ہیں جو میرے دوست ارشاد بھٹی نے ٹی وی پر بیان کر دیئے ہوں گے۔ شاید وہ مریم نواز کی وہ باتیں نہ بتا سکے ہوں جو الیکشن مہم کے دوران انہوں نے سانگلہ ہل میں فرمائی تھیں۔ ویسے تو یہ باتیں آپ کو سوشل میڈیا سے مل جائیں گی کیونکہ یہ تمام باتیں پاکستان کی نوجوان نسل نے سوشل میڈیا کی نذر کر دی ہیں، پاکستان میں کیا جمہوریت ہے، آزادی کی تو بات ہی اور ہے، اتنی آزادی کہ زیر حراست افراد محلات میں رہتے ہیں، حراست کے باوجود کھلے عام ٹیلی فون کرتے ہیں، تازہ مثال قومی اسمبلی میں نظر آئی۔

دونوں پارٹیوں کے رہنمائوں اور ان کے ہمنوائوں کی دو چار سال کی تقریریں اور باتیں سنی جائیں تو پھر دل کہتا ہے کہ عمران خان ان کے بارے میں سچ ہی کہتا تھا، کپتان نے ’’حالیہ شادی‘‘ کا بہت پہلے بتا دیا تھا۔ قوم کو مبارک ہو، مگر کوئی سیاسی تحریک نہیں چلنے والی، سیاسی پارٹیوں میں تحریک چلانے کی سکت ہی نہیں ہے، بس میڈیا کو دو چار روز کا مسالا مل گیا ہے۔ مجھے وطن سے دور بیٹھ کر امجد اقبال امجدؔ کے اشعار یاد آ رہے ہیں کہ

میں ہجر میں ہوں، وطن کا خیال رکھنا

مری طرح تم بھی امیدِ وصال رکھنا

میری محبتیں تیرے پاس امانت ہیں

ہو سکے تو تم انہیں سنبھال رکھنا

تازہ ترین