• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالتے ہی نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو پراقتدار میں واپسی کےتمام دروازے بند کر دئیے تھے۔ نواز شریف جدہ کے سرور پیلس میں دس سال کی جلاوطنی کے دن گزاررہے تھے اور محترمہ ایک طویل عرصہ سےلندن کے ایک فلیٹ میں مقیم ہو کررہ گئی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ سن دوہزار میں ڈاکٹر شیر افگن خان کے بیٹے اور میانوالی کے موجودہ ایم این اے امجد علی خان کے بھائی مرحوم بیرم خان اور میں محترمہ کے پاس لندن گئے۔ ڈاکٹر شیر افگن نے ہمارے لئے انہیں فون کیا تھا۔ سو محترمہ نے ہمارا بڑا خیال رکھا۔ دوپہر کا کھانا خود تیار کرکے ہمیں کھلایا۔ سالن محترمہ نے خود پکایا تھا، چپاتیاں ان کی سندھی ملازمہ نے پکائی تھیں۔ پھر پیر مظہر الحق کو بلا کر ہمیں ان کے حوالے کر دیاکہ ہماری رہائش وغیرہ کا بندوبست کریں۔ پیر صاحب کو وہاں سب سے بڑی تکلیف یہ تھی کہ گھر کی صفائی خود کرنا پڑتی ہے۔ تقریباً ایک سال کے بعد بیرم خان پاکستان واپس آ گئے اور ٹریفک حادثے میں شہیدہو گئے۔ میں وہیں مقیم رہا۔ محترمہ کے ساتھ وقتاً فوقتاً ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان کے اور آصف علی زرداری کے خلاف کیس بنائے جاتے رہے، حتیٰ کہ محترمہ کے بینک اکائونٹس تک سیز کر دئیے گئے۔ ان حالات میں محترمہ نے نواز شریف کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ نواز شریف کو بھی اس وقت ضرورت تھی کہ پاکستان واپسی کی کوئی صورت نکل سکے۔ سو دونوں مل بیٹھے اور آخر کار دوہزار چھ میں لندن میں رحمان ملک کی رہائش گاہ پر پیپلز پارٹی اور نون لیگ رہنماؤں کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے۔ پی پی پی کی مذاکراتی ٹیم میں محترمہ بینظیر بھٹو، مخدوم امین فہیم، رضا ربانی، سید خورشید شاہ، اعتزاز احسن اور راجہ پرویز اشرف شامل تھے نون لیگ کی ٹیم نواز شریف، شہباز شریف، اقبال ظفر جھگڑا، چوہدری نثار علی خان، پرویز رشید، احسن اقبال اور غوث علی شاہ پر مشتمل تھی۔ آٹھ صفحات پر مشتمل اس معاہدہ کو میثاقِ جمہوریت کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کی چند ایک شقیں یاد آرہی ہیں۔

1۔ فوج اور عدلیہ کے افسران کو اپنی جائیداد اورآمدنی کے سالانہ گوشوارہ جمع کرانے کا پابند کیا جائے۔

2۔ کمیشن بنایا جائے جو مارشل لائوں اور کارگل جیسے واقعات کی تحقیق کرے۔

3۔ تمام خفیہ ایجنسیاں خاص طور پر آئی ایس آئی منتخب حکومت کے ماتحت ہوںاور ان کے تمام سیاسی ونگ ختم کردئیے جائیں۔

4۔ کمیشن بنایا جائے جو فوج کو الاٹ کی گئی زمینوں کے کیسوں کا جائزہ لے۔

5۔ ملٹری لینڈ اور کنٹونمنٹ کو وزارتِ دفاع کےحوالے کیا جائے۔

اس معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک برطانوی نشریاتی ادارے نے کہا ’’میثاق جمہوریت صدر بش جنرل مشرف کو ’سزا‘ دینے کےطور پر دے رہے ہیں اور ہمارے خود ساختہ جلا وطن رہنما امریکی اسکائی لیب پر بیٹھ کر اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں ‘‘۔ بہر حال کچھ عرصہ کے بعد جلاوطن رہنما پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ محترمہ شہید کر دی گئیں اورپیپلز پارٹی کی حکومت آگئی توآصف علی زرداری اس معاہدے سے منحرف ہو گئے انہوں نے کہا ’’ معاہدے حدیث یا قران نہیں ہوتے ‘‘۔ دونوں جماعتیں جدا ہو گئیں۔

اب تقریباً دس سال کے بعد پھر اسی میثاق جمہوریت پرگفت و شنید شروع ہوئی ہے۔ جسے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن اتحاد کہا جارہا ہے۔ یہ نیا میثاق جمہوریت کیسا ہوگا۔ مجھے نہیں لگتا کہ اب اس میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کوئی شق شامل کی جائے گی۔ کیونکہ دونوں پارٹیاں ا سٹیبلشمنٹ کو منانے کی کوشش کررہی ہیں۔ اپوزیشن اتحاد دیکھتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے اپنے رویہ میں لچک پیدا کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت نے بلاول زرداری کا نام ای سی ایل میں شامل کرتے ہوئے عجلت سے کام لیا ہے۔ ابھی اس بات کا اندازہ نہیں ہو سکا کہ لچک ذاتی طور پر شاہ محمودکے رویے کی ہے یاپارٹی پالیسی ہے۔ پارٹی پالیسی ہونے کا امکان کم ہے کیونکہ فواد چوہدری کےتند و تیز لہجے میں ابھی تک کوئی فرق نہیں آیا۔ سمجھ دار لوگ فواد چوہدری کے رویےکو ہی پارٹی پالیسی سمجھ رہے ہیں۔

یہ جو نیا میثاق جمہوریت ہے۔ سوچتا ہوں کہ یہ مارشل لا کے زمانے کی چیزآج کے جمہوری دور میں کیسے قابل عمل ہو سکتی ہے۔ اِس نئے میثاق کو میثاقِ اقتدار کہا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف کے نزدیک یہ میثاقِ کرپشن ہے۔ یعنی آصف علی زرداری اور نواز شریف نے اپنے مقدمات سے نجات حاصل کرنے کےلئے یہ اتحاد کیا ہے اور یہ حکومت کے خلاف کم اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف زیادہ ہے۔ یعنی یہ نیب کے خلاف ترتیب پانے والا اتحاد ہے۔ یہ اُن قومی اداروں پردبائو ڈالنے کےلئے کیا جارہا ہے جنہوں نے طے کرلیا ہے کہ اس ملک کو ہر حال میں کرپشن کے کینسر سے محفوظ کرنا ہے چاہے اس کےلئے جتنا بڑا آپریشن ہی کیوں نہ کرنا پڑ جائے۔ وہ لوگ جو یہ سوچ رہے ہیں کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری دوبارہ اقتدار میں آ گئے وہ چڑیا خانے کی حکایات پر مشتمل کسی دوسری دنیا کے بھٹکے ہوئے خیال میں رہ رہے ہیں، حقیقت میں نہیں۔ واپسی کا سفر بہت مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے۔ آنے والے پانچ سالوں میں کرپشن کا پاکستان سے مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا۔ حتی کہ تحریک انصاف کے بھی کئی لیڈر گرفتار کر لئے جائیں گے۔ سجاد بابر کا ایک شعر یاد آرہا ہے

اس کنارےدیاجل رہاہے

کوئی ایک پل بھی ہے اور ایک کشتی بھی ہے

متفق پھر بھی ہیں ساری دانائیاں،

واپسی کا سفر اتنا آساں نہیں

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین