• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جھوٹے مقدموں، گواہوں، انصاف میں تاخیر کیخلاف ڈیم بنانا چاہتا ہوں، جسٹس آصف سعید کھوسہ

اسلام آباد (رپورٹ :رانا مسعود حسین/جنگ نیوز/نیوز ایجنسیز/ مانیٹرنگ سیل) نامزد چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ جھوٹے مقدموں،گواہوں، انصاف میں تاخیر کیخلاف ڈیم بنانا چاہتا ہوں، میں بھی قرض اتارنا چاہتاہوں، عدالتوں میں زیر التوا 19 لاکھ مقدموں کا، جن کیلئے 3 ہزار مجسٹریٹس اور ججز ہیں، میری رگوں میں بلوچ خون ہے، آخری وقت تک لڑوں گا، سول بالا دستی اور سویلینز کا احتساب جمہوری استحکام کیلئے لازم و ملزوم ہے، میثاق حکمرانی کیلئے صدر کی زیر قیادت چوٹی کی پارلیمانی عدالتی اور انتظامی قیادت جس میں فوج اور ایجنسیاں بھی شامل ہوں کے مابین مباحثہ ہونا چاہئے،مقدمات کا التوا کم کرنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے، لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیوں کے قومی وحدت اور ملک کے آئینی انتظام پر منفی اثرات ہونگے، ججوں کی کمی کے مسئلے پر توجہ نہیں دی گئی،سوموٹو کا اختیار بہت کم اور صرف ان قومی معاملات میں ہوگا جہاں کوئی دوسرا حل نہ ہو، اس اختیار کا دائرہ طے کرنے اور اس کے فیصلوں کیخلاف اپیل کی گنجائش نکالنے کی کوشش کرینگے،فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف ہائیکورٹ میں اپیل کی گنجائش ہونی چاہئے، مقدمے بازی کم، غیر ضروری التوا ختم کرنے اور عدالتی نظام کو آسان بنانے کیلئے بنیادی تبدیلیاں ضروری ہیں، پالیسی معاملات میں عدالتوں کی مداخلت پر بھی بات ہونی چاہئے، ہم تسلیم کریں کہ اداروں میں اعتماد کا فقدان رہا ہے اور ہر ایک کی اپنی وجوہ ہیں، اب یہ مسئلہ حل ہونا چاہئے، حکومتی معاملات میں فوج اور ایجنسیوں کے کردار پربات ہونی چاہئے، مقننہ کا کام قانون سازی ہے، ٹرانسفر، پوسٹنگ یا ترقیاتی فنڈز دینا نہیں، تمام خصوصی عدالتیں ختم ہونی چاہئیں۔نمائندہ جنگ کے مطابق نامزد چیف جسٹس آف پاکستان ،مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے صدر پاکستان سے ریاستی اداروں کے مابین ڈائیلاگ کے لئے ایک سیمینار بلانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہاہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایک چارٹر آف گورنس تشکیل دیا جائے، کہ آئندہ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا، مجوزہ سیمینار میں اعلیٰ پارلیمانی قیادت، اعلیٰ عدالتی قیادت اور اعلیٰ انتظامی قیادت (بشمول آرمڈ فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیاں) شمولیت اختیار کرکے ماضی کے زخموں پر مرہم رکھ کر زخموں کو مندمل کرنے کی کوشش کریں،اور ایک قابل عمل پالیسی فریم ورک کے لئے کام کیاجائے تاکہ ریاست کا ہر ستون اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر رہ کر کام کرے ، اس ساری پریکٹس کا مقصد آئین، قانون اور جمہوریت کو مضبوط بنانا ہے تاکہ تمام ستون اس ملک کے شہریوں کے اصل مسائل پر توجہ دے سکیں،اور وہ (عوام)دنیا کی قوموں میںباعزت اور باوقار مقام حاصل کرکے عالمی امن ، ترقی اور انسانیت کی خوشی میں اپنا حصہ ڈال سکیں،انہوںنے ان خیالات کا اظہار جمعرات کو اپنے منصب سے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے اعزا زمیں دیئے گئے الوداعی فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوںنے کہاکہ میں پچھلے بیس سال سے جسٹس میاں ثاقب نثار کے ساتھ جڑا ہوا ہوں، ہم دونوں 21مئی 2018کو ایک روز ہی لاہور ہائیکورٹ کے جج بنے،3نومبر2007کو ایک روز ہی غیر فعال ہوئے، 30اگست 2008کو ایک روز ہی بحال ہوئے اور 18فروری 2010کو ایک روز ہی سپریم کورٹ کے جج بنے،انہوںنے کہاکہ ہم دونوں ایک ساتھ جڑے ہوئے بھائیوں کی طرح ہیں جو آج آدھی رات کو الگ الگ ہو جائیں گے،لیکن کسی سرجری کے ذریعے نہیں بلکہ آئین کی مداخلت سے ، جس پر کمرہ عدالت میں ایک قہقہہ گونجا ،انہوںنے کہاکہ اس علیحدگی سے سب سے زیادہ نقصان میرا ہوگا ، آج کے بعد ایک مخلص دوست ،ایک بااعتماد اور عقلمند وکیل ،ایک مانا ہوا لائق اور ماہر جج میری عدالت میں میری مدد ،مشاورت اور رہنمائی کے لئے دستیاب نہیں ہو گا،مجھ سے پہلے خطاب کرنے والوں نے بھی بتایاہے کہ جسٹس میاںثاقب نثار کتنے اچھے جج ہیں،میں انکے الفاظ کی تصدیق کرتا ہوں کہ میں نے لاہور ہائی کورٹ کے 1سو کے قریب ججوں کے ساتھ کام کیا ہے اور ابھی تک یہاں پر بھی کام کررہا ہوں ، لیکن میں نے میاں ثاقب نثار جیسا سول ، ٹیکس ،ریونیو،سروس اور آئینی معاملات کا کوئی ماہر نہیں دیکھا،میں نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے متعد چیف جسٹسز کے ساتھ کام کیا ہے لیکن میں نے کسی کو بھی جسٹس میاں ثاقب کی طرح عدالت چلاتے ہوئے نہیں دیکھا،انہوںنے کہاکہ میاںصاحب ہم آپ کی بنیاد حقوق کے مقدمات کے حوالے سے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھیں گے ،انہوںنے کہاکہ میں بطور چیف جسٹس آف پاکستان انصاف کی فراہمی میں تعطل کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ماتحت عدلیہ میں برسوں سے زیر التوا مقدمات کے جلد فیصلے کرانے کی کوشش کروں گا، ہم نے اس وقت تک فوجداری مقدمات کو تیز رفتاری سے نمٹایا ہے اور اب صرف چند سو فوجداری مقدمات ہی زیر التواء ہیں ،جنہیں معمول کے موجودہ مقدمات تصور کیا جاسکتا ہے،انہوںنے کہاکہ اس سے قبل کسی نے بھی اتنی بڑی تعداد میں مقدمات نہیں نمٹائے ہیں اور یہ اس وجہ سے ممکن ہو ا ہے کہ ہم نے اس دوران کاز لسٹ کو روزانہ کی بنیاد پرکنٹرول میں اور مقدمات کے کم التوا کی کم سے کم درخواستوں کو منظور کرنے کی پالیسی کو برقرار رکھاہے جبکہ اس سلسلہ میں وکلاء کی جانب سے ملنے والے تعاون پر ان کے مشکور ہیں، انہوںنے کہاکہ فوجداری کے ساتھ ساتھ دیگر نوعیت کے مقدمات میں بھی یہی پالیسی لاگو کی جانی چاہئے،وکلاء کی سہولت اور التواء سے بچنے کے لئے ہمیں جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنی چاہئے ،اس کے لئے یہ نظام سپریم کورٹ کی برانچ رجسٹریوں کے ساتھ منسلک کیا جانا چاہئے جس کے ذریعے وکلاء برانچ رجسٹری میں ہی پیش ہوکر دلائل دے سکیں اور فاضل بنچ اسلام آباد کی پرنسپل سیٹ پر ہی سماعت کرکے مناسب وقت کے اندر اندر مقدمات کو نمٹا سکے ،اس جدید نظام کے ذریعے جہاں فریقین کو غیر ضروری اخراجات سے بچایا جاسکتا ہے وہیںبنچ کی عدم دستیابی کے معاملہ سے بھی نمٹا جاسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ جب جسٹس میاں ثاقب نثار لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو میرے مشورے پر ،اور ان کی سرپرستی میں جسٹس منصور علی شاہ کی سپرویژن میں پنجاب کے کچھ اضلاع میں ماڈل عدالتیں قائم کی گئی تھیں ،جہاں پر تین سے چار سال کی بجائے تین سے چار دنوں میں فیصلے جاری کئے جاتے تھے، ہائیکورٹس کے تعاون سے اس منصوبے کو ملک بھر تک پھیلایا جاسکتا ہے،انہوںنے کہاکہ ایک دفعہ جسٹس میاں ثاقب نثار نے آبزرویشن دی تھی کہ زندگی میں ان کی دو بڑی خواہشات ہیں اول ڈیم کی تعمیر ،دوئم قوم کو قرضوں کے چنگل سے نکالنا،ان کی طرح میں بھی ایک ڈیم تعمیر کرنا چاہتا ہوں لیکن میںجعلی مقدمات اور جعلی گواہوں کے خلاف ڈیم بناناچاہتا ہوں اور ان کی طرح ملک کا قرضہ اتارنے کے لئے عرصہ دراز سے زیر التوا ء مقدمات کا قرض اتارنا چاہتا ہوں،انہوںنے کہا کہ اس وقت ملک بھر کی تمام عدالتوں میں 19 لاکھ مقدمات زیر التوا ء ہیں،جنکے لئے ملک بھر میں کل 3 ہزار جج ہیں ، اگر یہ جج ایک دن میں 36گھنٹے بھی کام کریں تو بھی 19 لاکھ مقدمات کو نہیں نمٹا سکتے ہیں،اس حوالے سے آنے والی ہر حکومت نے ہی مالی معاملات کی وجہ سے نئے جج بھرتی نہیں کئے ،اس حوالے سے اب بڑا اور سخت فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے، ملک بھر میں قائم تمام خصوصی عدالتیںختم کر تے ہوئے عدلیہ کو ایک ہی تنطیمی ڈھانچہ کے ماتحت کرنا چاہئے ،جبکہ ضلعی عدلیہ ہی کے ججزخصوصی قوانین کے تحت بدعنوانی،دہشت گردی،بینکنگ، نارکوٹیکس،ڈرگزاور صارفین کے حقوق جیسے معاملات کی بھی سماعت کریں ،جن کی اپیلیں ہائی کورٹ میں کی جائیں ،انہوں نے کہا کہ خصوصی عدالتوں کو وفاقی حکومت مالی اور انتظامی طور پر چلاتی ہے لیکن یہ سب ایک ہی تنظیمی ڈھانچے کے ماتحت ہونی چاہئیں،اسی طرح ہم دائرہ کار کے تنازعات اور التوا کے مسائل سے نمٹ سکتے ہیں، ساری دنیا میںمقدمات کے جلد فیصلوں کے حوالے سے فوجی عدالتوں کو ایک تیز رفتار طریقہ کار سمجھا جاتا ہے ،اگر حکومت وقتی طور پرفوجی عدالتوں کے خلاف ہائی کورٹ کو اپیل کا اختیار دے دے تو یہ بھی اسی تنظیمی دائرہ کار میں آسکتی ہیں،اور تیزی سے انصاف کی فراہمی کو نقصان سے بھی بچایا جاسکتا ہے، ہائیکورٹس کو اپنے اختیارات آئینی حدود کے اندر رہ کر استعمال کرنے چاہئیں،انہوںنے مزید کہا کہ میری رگوں میں بلوچ خون دوڑ رہا ہے ،اور میں آخر تک لڑوں گا ،مجھے یقین ہے کہ میرے ساتھی ججوں اور بار ایسوسی ایشنز کی مدد اور تعاون سے یہ جدو جہد بار آور ثابت ہوگی،انہوںنے کہا کہ آئیں تسلیم کریں کہ ماضی قریب میں ریاست کے مختلف ستونوں کے مابین اعتماد کی کمی رہی ہے اور مقننہ ،عدلیہ اور انتظامیہ نے ہمیشہ اپنے اختیارات کے زیادہ استعمال کی کوشش کی ہے ،میری رائے میں اب وقت آگیا ہے کہ جب ہم سبب کو سر جوڑ کر ان معاملات کے حل کے لئے سچائی اور مصالحت کے لئے بیٹھ جانا چاہئے جنہوںنے ملک میں اچھی حکمرانی کو خطرے میں ڈال رکھا ہے ،آئیے ہم کھلے ذہن کے ساتھ اس بات کا جائزہ لیں کہ ماضی میں مقننہ ،عدلیہ اور انتظامیہ نے کہاں کہاں غلطیاں کی ہیں، آئیے اس بات کا جائزہ لیں کہ عدلیہ نے کب انتظامیہ کے معاملات میں مبینہ تجاوز یا پالیسی معاملات میں مداخلت کی ہے،آئیے ہم باہمی مل جل کر ان معاملات کو طے کریں،آئیے ہم سوچیں کہ عدلیہ پر مقدمات کا اتنا بوجھ کیوں ہے اور وہ کیوں تاخیر کا شکار ہیں،اورریاست کے دیگر متعلقہ ستون اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے میںناکام کیوں ہیں،آئیے جائزہ لیں کہ مقننہ کو کس طرح اس کے دائرہ کار(قانون سازی ) تک محدود کیا جاسکتا ہے ،جبکہ وہ ڈیویلپمنٹ فنڈز حاصل کرتی ہے اور انتظامی امور میں مداخلت کرتے ہوئے سرکاری اہلکاروں کے تبادلہ، تعیناتیاں، تقرریاں کرواکے اختیارات کا ناجائز استعمال، بدعنوانی، میرٹ کا قتل، نااہلیت اور بری حکمرانی کا باعث بنتی ہے ،آئیے جائزہ لیں کہ انتظامی ادارے اپنے امور میں کس طرح خود مختار رہ سکتے ہیں،انہوںنے کہاکہ آئیے لفظوں کو چبانے اور شرم محسوس کرنے کی بجائے آرمڈ فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حکومتی معاملات میں کردار پر بات کریں، ایک جمہوری ریاست میں سویلین بالادستی اور احتساب نہایت ضروری ہوتا ہے، آئیے ہم لاپتا افراد اور زبردستی گم کئے جانے والے افراد سے متعلق بات کریں،اہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریاستی امور کوئی آنکھ مچولی نہیں ہیں،اور ملکی سلامتی کے لئے بھی جارحانہ طریقے استعمال نہیں کئے جاسکتے ہیں، اب وقت آگیاہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے مستقبل کی بنیادیں رکھیں، اگر ترقی کرنی ہے تو آئیے خطرات کا حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرکے قومی کی تعمیر نو کریں،انہوںنے کہا کہ میں اپنے ساتھی ججوں کی اجازت سے صدر مملکت سے ریاستی اداروں کے مابین ڈائیلاگ کے لئے سیمینار بلانے کی تجویز پیش کرتا ہوں،جس کی وہ خود ہی صدارت بھی کریں،اب وقت آگیا ہے کہ ایک چارٹر آف گورنس تشکیل دیا جائے ،کہ آئندہ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا،میری تجویز ہے کہ مجوزہ سیمینار میں اعلیٰ پارلیمانی قیادت ،اعلیٰ عدالتی قیادت اور اعلیٰ انتظامی قیادت( بشمول آرمڈ فورسز اورانٹیلی جنس ایجنسیاں )شمولیت اختیار کرکے ماضی کے زخموں پر مرہم رکھ کر زخموں کو مندمل کرنے کی کوشش کریں،اور ایک قابل عمل پالیسی فریم ورک کے لئے کام کیاجائے تاکہ ریاست کا ہر ستون اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر رہ کر کام کرے، انہوںنے کہا کہ اس ساری پریکٹس کا مقصدآئین ،قانون اور جمہوریت کو مضبوط بنانا ہے تاکہ تمام ستون اس ملک کے شہریوں کے اصل مسائل پر توجہ دے سکیں،اور وہ (عوام)دنیا کی قوموں میںباعزت اور باوقار مقام حاصل کرکے عالمی امن ، ترقی اور انسانیت کی خوشی میں اپنا حصہ ڈال سکیں، انہوںنے کہاکہ اس وقت ہمیں مقدمہ بازی میں کمی اور غیر ضروری التوا کو کم کرنے کی ضرورت ہے ، عدالتی نظام کی تشکیل نو کا وقت آگیا ہے ،ہم اس کا نیاڈھانچہ تشکیل دے کر ہی ایک سادہ اور موثر عدالتی نظام تشکیل دے سکتے ہیں، انہوںنے کہاکہ ملک میں فور ٹائر جوڈیشری کی بجائے تھری ٹائر جوڈیشری کا نظام نافذ کرنے کی ضرورت ہے ،جس میں ضلعی عدلیہ فوجداری اور دیوانی مقدمات میں ٹرائل کورٹ جبکہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بطور اپیل کورٹ فرائض سرانجام دیں،اس نظام میں ہائیکورٹ کی سطح تک تمام قانونی سوالات حل ہوچکے ہوں جبکہ سپریم کورٹ آئینی اورقانونی معاملات کی تشریح کرسکے ،انہوںنے کہاکہ ججوں کو ہر سطح پرلاء کلرک،ریسرچ اسسٹنٹ اور ججمنٹ رائٹر فراہم کئے جانے چاہئیںاور فیصلے لکھنے کے لئے مختصر فارمیٹ ہونا چاہئے،ہم غیر ضروری قوانین کا خاتمہ چاہتے ہیں، اس لئے مقننہ ان میں ترمیم کرے یا پھر عدالت ان کی اسکروٹنی خو د کرے گی،انہوںنے واضح کیا کہ میں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت از خود نوٹس کے اختیارات کا بہت کم استعمال کروں گا ،اس کا استعمال صرف قومی نوعیت کے ان مقدمات میں ہی کیا جائے گا جن میں کوئی اور داد رسی دستیاب نہیں ہوگی،جبکہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کا اسکوپ اور پیمانہ مقرر کرنے کے لئے یا تو فل کورٹ میٹنگ بلائی جائے گی یا جوڈیشل ایکسر سائز کی جائے گی،انہوںنے کہاکہ مجھے معلوم ہے کہ جوڈیشل سیکٹر کو بہت سے جناتی مسائل کا سامنا ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ان معاملات کو سلجھانے میں کوئی فرو دقیقہ نہیں رکھوں گا ،آخر میں انہوںنے کہاکہ میں اور میرے ساتھی جج ،جسٹس میاں ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد انکی خوشیوں سے بھری پرسکون اورصحتمند زندگی کیلئے دعا گو ہیں۔

تازہ ترین