• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس ثاقب نثار نے جوڈیشل ایکٹوازم کو انتہا تک پہنچا دیا، عرفان قادر

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں گفتگو کرتے ہوئے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہاہے کہ جسٹس ثاقب نثار نے جیوڈیشل ایکٹوازم کو انتہا تک پہنچادیا ،صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنرانی نے کہا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے انسانی حقوق اور مفاد عامہ کے مسائل کے حل کیلئے جو کام کیا اس پر اعتراض کرنے والے عوام نہیں متاثرہ فریق ہیں، غریب آدمی نے کبھی سوال نہیں اٹھایا کہ چیف جسٹس اسپتال کیوں آئے، سابق صدرسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن رشید اے رضوی نے کہا کہ جسٹس ثاقب نثار نے ملک بھر سے کرپشن ختم کرنے کی کوشش کی مگر اپنے گھر عدلیہ میں کچھ نہیں کیا،سابق وزیر قانون بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ جسٹس ثاقب نثار کا پاکستان کی تاریخ کے بہترین ججوں میں شمار ہوتا ہے۔ سابق صدرسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن رشید اے رضوی نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار آرٹیکل 184/3کے استعمال میں بہت آگے چلے گئے تھے، انہوں نے ملک بھر سے کرپشن ختم کرنے کی کوشش کی مگر اپنے گھر عدلیہ میں کچھ نہیں کیا، جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس بنے تو زیرالتواء کیسوں کی تعداد 32ہزار تھی جو ان کی ریٹائرمنٹ پر کم ہونے کے بجائے 40ہزار تک پہنچ گئی، چیف جسٹس ثاقب نثار اپنا آئینی کام سرانجام نہیں دے سکے۔ رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ جسٹس ثاقب نثار کی طرف ساتھی جج کے اختلاف پر بنچ توڑ دینا ایسا واقعہ تھاجس کی جمہوری دنیا میں مثال نہیں ملتی، عدلیہ کی آزادی کیلئے ضروری ہے کہ چیف جسٹس ساتھی ججوں کی رائے کا احترام کریں۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کو آرٹیکل 184/3سے ہٹ کر قانونی کیسوں کے تناظر میں دیکھیں تو انہوں نے بہت اچھے اور بولڈ فیصلے کئے، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جس جیوڈیشل ایکٹو ازم کی ابتداء کی تھی چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس کی انتہا کی، ان کے دور میں جیوڈیشل ایکٹوازم بڑھ کر ڈکٹیٹرشپ تک چلا گیا، چیف جسٹس نے پبلک اور پرائیویٹ اداروں میں بھی مداخلت شروع کردی جو ان کا ڈومین نہیں تھا۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ جسٹس ثاقب نثار نے جس جیوڈیشل ایکٹوازم کو انتہا تک پہنچادیا تھا جسٹس کھوسہ نے مختصر سی تقریر میں اسے اختتام پذیر کردیا ہے، جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ساتھی ججوں کا اختلاف بھی برداشت نہیں کیا۔صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنرانی نے کہا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے انسانی حقوق اور مفاد عامہ کے مسائل کے حل کیلئے جو کام کیا اس پر اعتراض کرنے والے عوام نہیں متاثرہ فریق ہیں، غریب آدمی نے کبھی سوال نہیں اٹھایا کہ چیف جسٹس اسپتال کیوں آئے، چیف جسٹس ثاقب نثار کے اقدامات میں قانون کی خلاف ورزی ہوسکتی ہے لیکن بدنیتی کہیں نہیں تھی، ملک جن مسائل کا شکار ہے اس میں اسٹیٹس کُو نہیں چلے گا، اگر عدلیہ معاملات درست نہیں کرے گی تو کل کوئی طاقتور درست کرے گا، گورننس صحیح نہیں ہوگی تو عدلیہ یا کسی طاقتور کی طرف سے ہچکولے آتے رہے ہیں، حکومت عدلیہ کے ہچکولے برداشت کرے تو یہ ہمارے لئے بہتر ہوگا۔ امان اللہ کنرانی کا کہنا تھا کہ ججوں کے درمیان اختلاف رائے کو غلط نہیں کہا جاسکتا ہے، چیف جسٹس کے بنچ توڑنے پر جسٹس منصور علی شاہ کے نو مہینے بعد اعتراض کرنے پر بھی بات ہوسکتی ہے، بنچ توڑنے کے معاملہ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ کا کوئی قصور نہیں ہے ، طریقہ کار پر اگر اختلاف ہے تو اسے درست ہونا چاہئے۔سابق وزیر قانون بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ جسٹس ثاقب نثار کا پاکستان کی تاریخ کے بہترین ججوں میں شمار ہوتا ہے، بطور چیف جسٹس ثاقب نثار کا دور پاناما سے پہلے اور پاناما کے بعد کے دو حصوں میں منقسم ہے، پاناما سے پہلے تو انہوں نے سپریم کورٹ کو ایسے ہی چلایا جیسے پچھلے چیف جسٹسز نے چلایا تھا، اس سپریم کورٹ میں انسانی حقوق کا خیال تو رکھا جاتا تھا لیکن حکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کی جاتی تھی، پاناما کیس کے بعد سیاستدانوں کی نااہلی کے معاملات آگئے جس پر عدالت میں زبردست تنقید شروع ہوگئی، چیف جسٹس ثاقب نثار نے کامیابی سے سپریم کورٹ کی کشتی کو اس طوفان سے گزارا اور عدلیہ پر لوگوں کا اعتماد بحال رکھا۔ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے جیوڈیشل ایکٹوازم میں بہت طاقتور لوگوں کااحتساب شروع ہوا، جسٹس ثاقب نثار نے پانی اور آبادی جیسے اہم مسائل کی طرف بھی دھیان دیا، آئین کے آرٹیکل 184/3کے تحت عدالت حکومت کے کام کرسکتی ہے یا نہیں اس پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے۔
تازہ ترین