• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دبئی، کاروباری برادری سےتحقیقاتی اداروں کے دھمکی آمیز رابطے رک گئے

دبئی (سبط عارف) بیرون ملک مقیم پاکستان کی کاروباری برادری سے تحقیقاتی اداروں کے دھمکی آمیز رابطے رک گئےہیں۔صدر پاکستان بزنس کونسل دبئی، اقبال دائود کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی اداروں نے بزنس کمیونٹی میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کردی تھی۔تفصیلات کے مطابق، دبئی میں پاکستانی کاروباری برداری نے فی الحال سکھ کا سانس لیا ہے کیونکہ پاکستان کی تحقیقاتی اداروں نے دھمکی آمیز رابطوں کا سلسلہ روک دیا ہے۔ دبئی میں روٹی روزی کمانے والے کامیاب پاکستانی کاروباری شخصیات پر پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان کے تحقیقاتی اداروں کی طرف سے دباؤ ڈالا جارہا تھا کہ وہ نہ صرف دبئی میں پاکستانی رئیل اسٹیٹ انویسٹرز کے بارے میں اُن کو مطلع کریں بلکہ اپنی بھی دبئی میں خریدی گئی جائیدادوں کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کریں البتہ اب یہ سلسلہ کچھ تھم سا گیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ پاکستانی کے تحقیقاتی اداروں نے براہ راست اوورسیز پاکستانی بزنس کمیونیٹی کے سو سے زائد کاروباری شخصیات سے رابطہ کیا اور انُ سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی، جائیدادوں کی منی ٹریل لینے کی کوشش کی اور اعانت نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دیتے رہے۔ البتہ دبئی کی پاکستانی بزنس کمیونیٹی کے موجودہ حکومت کے حکام سے متعدد بار تشویش کا اظہار کرنے کے بعد سلسلہ فی الحال تھوڑا رک گیا ہے۔دبئی میں پاکستان بزنس کونسل کے صدر اقبال داود نے دی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے تحقیقاتی اداروں نے پاکستان کی بزنس کمیونٹی میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کردی تھی۔ اقبال داود نے واشگاف الفاظ میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے اور ملک کی بیورو کریسی پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ دبئی میں پاکستانی بزنس کمیونیٹی پر بذریعہ فون، ایس ایم ایس، ای میلز اور واٹس اپ بار بار دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے کہ اپنی جائیدادوں کے بارے میں اُن کو اگاہ کیا جائے۔ اقبال داود نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک محنت مشقت کرنے والے پاکستانی خصوصا کاروباری افراد (جو مکمل طور پر اپنا کاروبار بیرون ملک کررہے ہیں) اُن پر حکومت پاکستان کی جانب سے کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا اور نہ ہی آمدنی پر کوئی ٹیکس لگایا جاسکتا ہے۔ اس لئے موجودہ حکومت کے حکام سے متعدد بار رابطہ کیا گیا اور ان کو ایف آئی اے اور بیوروکریس کی دھمکیوں کے بارے میں آگاہ کیا جس کے بعد بالآخر دبئی میں پاکستان کی بزنس کمیونیٹی کو دھونس اور دھمکیوں کا سلسلہ بند ہوا ہے۔ قانون کے مطابق سمندر پار پاکستانیوں (Non Residents Pakistanis) کی آمدنی اور بیرون ملک جائیداد پر کوئی پراپرٹی، سیلیز اور دیگر ٹیکس عائد نہیں ہوتے ہیں۔ یہ قانون ان افراد پر لاگو ہوتا ہے جو اوورسیز پاکستانی مکمل طور پر اپنا کاروبار اور نوکری بیرون ملک کرتے ہیں۔پاکستان بزنس کونسل کے سابق صدر احمد شیخانی نے بھی دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ایسے ہی ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ احمد شیخانی نے کہا کہ حکومت کے اداروں کو اوورسیز پاکستانیوں (NRPs) اور پاکستان میں کاروبار یا پھر نوکری کرکے دبئی میں جائیداد بنانے والے میں فرق کرنا چاہئے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان کو سخت مانیٹری پالیسی اپنانی چاہئے تاکہ غیر قانونی طریقے سے پاکستان سے پیسہ بیرون ملک منتقل ہونے سے روکا جاسکے۔ احمد شیخانی نے کہا کہ پاکستان بزنس فورم دبئی گزشتہ دو سال سے پاکستان میں مخلتف سیکٹرز میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے کئی دفود پاکستان لیکر جاچکا ہے تاکہ ملک میں بھی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو مگر انھوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کے تحقیقاتی اداروں کی غیر اخلاقی و غیر قانونی کارگزاریوں کی وجہ سے گزشتہ کچھ عرصے سے دبئی میں بزنس کرنے والی پاکستانی کاروباری برادری کے اعتماد کو ٹھیس لگی ہے۔ البتہ احمد شیخانی نے بتایا کہ اب یہ دباؤ کا سلسلہ رکا ہے۔ انھوں نے امید کا اظہار کیا کہ دبئی میں پاکستان کی بزنس کمیونیٹی میں مزید اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ حکومتی اداروں کو رہنمائی کا ذریعہ سمجھیں نہ کہ اُن سے خوف کھائیں۔ اطلاعات ہیں کہ دبئی میں انُ پاکستانیوں سے بھی رابطہ اور تحقیقات کرنے کی کوشش کی گئیں ہیں جن کا کاروبار یا پھر نوکری امارات میں کئی دہائیوں سے ہے۔ متحدہ عرب امارات خصوصا دبئی میں کئی دہائیوں سے بسے کئی سو نوکری پیشہ و کاروباری شخصیات نے دبئی میں فلیٹس، گھر یا بنگلے آسان اقساط پر بھی خریدے ہیں۔ دبئی میں برسرِ روزگار غیر ملکیوں افراد نے گزشتہ پندرہ سالوں میں کرائے پر رہائش اختیار کرنے کے بجائے بذریعہ بینکس آسان اقساط پر اپارٹمنٹس، گھر یا بنگلے خریدے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ دبئی نے 2002 میں غیر ملکیوں کیلئے اپارٹمنٹس اور گھر خریدنے کا قانون متعارف کرایا تھا جس کے بعد سے دبئی میں رئیل اسٹیٹ انڈسٹری میں انقلاب آگیا۔ اطلاعات ہیں کہ اُس وقت سے اب تک متحدہ عرب امارات، برطانیہ، یورپ اور امریکا میں رہنے والے سات ہزار اوورسیز پاکستانیوں نے دبئی میں تقریبا 1,100 ارب روپے مالیت کی پراپرٹیز خریدی ہوئی ہیں۔
تازہ ترین