• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویڈیو گیمز بچوں میں پُرتشدد رحجانات پروان چڑھارہے ہیں؟

رواں سال فروری میں وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں ایک اجلاس ہوا، جس میں بحث کا موضوع یہ تھا کہ ’امریکی بچے کیا دیکھ رہے ہیں‘؟

ڈونلڈ ٹرمپ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’میں ہر آئے دن یہ سُن رہا ہوں کہ پُرتشدد ویڈیو گیمز بچوں کے ذہنوں پر اثرانداز ہورہی ہیں اور وہ ان کے ذہنوں کو ایک ڈگر پر ڈال رہی ہیں۔ پھر آپ ایک قدر اور آگے جاتے ہیں اور وہ ہیں موویز(فلمیں)۔ ہمارے بچے وہ فلمیں دیکھتے ہیں، جو انتہائی پُرتشدد ہوتی ہیں، اگر ان میں قابلِ اعتراض سین نہ ہوں تو بھی ان میں مار دھاڑ اور قتلِ عام کا عنصر موجود ہوتا ہے‘۔

امریکی صدر کے اس بیان کو کِرس گریڈی (Chris Grady)نے فوراً مسترد کردیا، جو 14فروری 2018ء کو فلوریڈا کے اسٹون مین ڈگلس ہائی اسکول میں ہونے والی فائرنگ کے واقعے میں محفوظ رہنے والوں میں شامل تھے۔ ’میں فرسٹ پرسن شوٹر ویڈیو گیمز کھیلتے ہوئے بڑا ہوا ہوں اور میں کبھی کسی انسان کی جان لینے کا خواب و خیال میں بھی نہیں سوچ سکتا‘۔

تاہم، رپورٹس کے مطابق، جولائی 2016ء میں جرمنی کے شہر میونخ میں 9لوگوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کرنے والا 18سالہ گن مین فرسٹ پرسن شوٹر ویڈیو گیمز کا پرستار تھا۔ یہ اور اس جیسی دیگر کئی رپورٹس کے منظرِعام آنے کے بعد دنیا بھر کے والدین آج کل ایک تکلیف دہ دور سے گرز رہے ہیں کہ کہیں ویڈیو گیمز ان کے بچوں پر منفی طریقے سے اثرانداز تو نہیں ہورہے۔

سچ کیا ہے؟

امریکی سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن اور امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس، یہ دونوں ادارے بچوں اور ٹین ایجرز کے پُرتشدد ویڈیو گیمز کھیلنے کے خلاف پختہ رائے رکھتے ہیں۔

امریکن سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن کے مطابق امریکا میں 90فیصد بچے ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں۔ 12سال سے 17سال تک کے بچوں میں ویڈیو گیمز کھیلنے کی شرح بڑھ کر97فیصدتک جاپہنچی ہے۔ سب سے اہم بات 85فیصد یا اس سے زائد ویڈیو گیمز میں کسی نہ کسی شکل میں تشدد ضرور پایا جاتا ہے۔ آئیے چند ویڈیو گیمز کے ٹائٹلز پر نظر دوڑاتے ہیں۔ Manhunt، Thrill Kill، Gears of Warاور Mortal Kombat۔ یہاں تک کہ Pokemon Go جیسے گیم میں بھی کھیلنے والے کو جنگ کے میدان میں جانا پڑتا ہے۔

امریکن سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن کا اگست 2015ء میں ایک پالیسی بیان میں کہنا تھا، ’تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ پُرتشدد ویڈیو گیمز کا بچوں میں بڑھتے جارحانہ رجحان اور ان میں کم ہوتے سماجی اور اخلاقی رجحانات میں براہِ راست تعلق پایا جاتا ہے‘۔

جولائی 2016ء میں امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹریکس نے میڈیا کے ذریعے دِکھائے جانے والے تشدد سے متعلق واقعات پر رہنما اصول جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس طرح کا تشدد دیکھنا بچوں کے لیے بُری مثال بن رہا ہے۔ اکیڈمی کا کہنا تھا، ’ ویڈیو گیمز میں انسان یا کسی بھی جاندار کو نشانہ بنانے جیسے مناظر نہیں دِکھانا چاہئیں اور نہ ہی کسی کو مارنے پر انعامی پوائنٹس دیے جانے چاہئیں، کیونکہ اس سے بچوں کو یہ تاثر جاتا ہے کہ ان کی خوشی اور کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ دوسروں کو کس قدر تکلیف میں ڈال سکتے ہیں یا انھیں اذیت پہنچا سکتے ہیں‘۔

نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے نئے جرنل میں شائع ہونے والی ایک تازہ تحقیق بھی اس بات کو تقویت دیتی نظر آتی ہے۔ Dartmouth یونیورسٹی کے محققین نے 2010ء سے 2017ء کے درمیان 9سال سے 19سال کی عمر کے 17,000بچوں پر 24مشاہدے کیے۔

تحقیق میں شامل بچوں کو تین مہینے سے چار سال تک زیرِمشاہدہ رکھا گیا تھا۔ ہر تحقیق میں بچوں کے جارحانہ رجحانات کا مشاہدہ کیا گیا کہ آیا ویڈیو گیمز دیکھنے والے بچوں میں حقیقتاً پہلے سے زیادہ جارحانہ پن آجاتا ہے اور وہ لوگوں سے لڑتے ہیں اور انھیں زور سے مارتے ہیں۔

تحقیق کے اختتام پر محققین اس نتیجے پر پہنچے کہ پُرتشدد ویڈیو گیمز بچوں کے رویوں پر قابلِ ذکر حد تک منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں محققین یہ کہنے کی کوشش کررہے تھے کہ ویڈیو گیمز بچوں میںپائے جانے والے جارحانہ رجحانات کو بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔ان نتائج کے بعد، ماہرین کہتے ہیں کہ اب دنیا کو اس بحث کو ختم کرنا چاہیے کہ آیا ویڈیو گیمز بچوں کے رویوں پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں کہ نہیں بلکہ دنیا کو اب اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ذیلی سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ بچوں پر ویڈیو گیمز کے جارحانہ اثرات کیوں، کب اور کس کے لیے مرتب ہوتے ہیں۔

نیشنل سینٹر فار ہیلتھ ریسرچ کے مطابق، پُرتشدد ویڈیو گیمز بچوں کو اور طویل مدت میں معاشرے کو جارحانہ رجحانات کے بارے میںبے حس اور ہم احساسی (Empathy) کے جذبات کو ختم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ’بچے جتنا زیادہ عرصہ پُرتشدد ویڈیو گیمز دیکھیں گے، ان میں جارحانہ رجحانات، سوچ اور جذبات پیدا ہونے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے‘۔

یہی وجہ ہے کہ سال 2018ء میں عالمی ادارہ صحت (WHO)نے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ دماغی امراض کی فہرست میں Gaming Disorderکو بھی شامل کردیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے Gaming Disorderکی 3نشانیاں بتائی ہیں۔ بچے گیم کھیلنے کی عمومی معیاری عادات پر اپنا کنٹرول کھو بیٹھتے ہیں، وہ اپنی روزمرہ کی دیگر سرگرمیوں پر گیمنگ کو ترجیح دیتے ہیں اور واضح منفی نتائج کا علم ہونے کے باوجود گیم کھیلنا جاری رکھتے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ا س کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ بچے ویڈیو گیمز کھیلنا ترک کردیں۔ اس کے بجائے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوںکو ویڈیو گیمز کھیلنے میں میانہ روی اختیار کرنے کی تربیت دیں۔ اگر میانہ روی کے ساتھ ویڈیو گیمز کھیلی جائیں تو اس سے ذہنی دباؤ میں کمی آتی ہے، بچوں میں مسائل حل کرنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے اور آنکھوں اور ہاتھوں کی سرگرمی میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔

تازہ ترین