• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ نوحہ صرف ایک سیاستدان کا نہیں، ایک عظیم انسان کا بھی ہے جو ہم سے جدا ہوگیا ہے۔ اس شخص کا نام پروفیسر غفور احمد تھا۔ پروفیسر صاحب جماعت اسلامی پاکستان کے”نائب امیر“ تھے لیکن”غریب “ تھے۔1950ء میں سیاست میں آئے اور 2012 ء تک یعنی 62برسوں میں بھی وہ ایک کوارٹر نما گھر سے ڈیفنس کے کسی عالیشان محل میں منتقل نہ ہوسکے۔ وہ حالانکہ وفاقی وزیر بھی رہے، سینیٹ کے رکن بھی تھے، قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے اور یوں بہتی گنگا میں غسل کرنے کے بہت سے مواقع ان کے پاس موجود تھے مگر غسل تو کیا انہوں نے اس میلی گنگا میں اپنا پاؤں رکھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ ساری عمر درویشی میں بسر کی اور اپنی روح کو آلودگی سے بچائے رکھا۔ مرحوم عظیم انسان ہی نہیں، ایک عظیم سیاستدان بھی تھے۔ ان کی سیاست ایک مہذب انسان کی سیاست تھی، وہ کسی کو لیٹرا، ڈاکو، چور نہیں کہتے تھے اور کسی پر ایسا کوئی الزام عائد نہیں کرتے تھے جس کے لئے ان کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو، وہ جلسوں میں چیختے چلاتے بھی نہیں تھے۔ اپنی بات دھیمے ، لہجے میں دلیل کے ساتھ کرتے تھے، ذوالفقار علی بھٹو شہید کے ساتھ جس مذاکراتی ٹیم نے مذاکرات کئے تھے ۔ اس میں نواب زادہ نصر اللہ خاں اور مفتی محمود کے علاوہ پروفیسر غفور احمد بھی شامل تھے۔ یہ مذاکرات کامیاب رہے تھے لیکن پھر وہی ہوا جس کے حوالے سے کہا جاتا یعنی
وہی ہوتا ہے جو ”منظور خدا“ ہوتا ہے!
میرے دل میں پروفیسر غفور احمد کے لئے جو بے پایاں احترام اور محبت ہے اس کی ایک وجہ ان کا اپنے نظرئیے کے لئے ساری عمر وقف کردینا اور ہر طرح کی مشکلات کے باوجود پائے استقلال میں لغزش کا نہ آنا ہے۔ ان کی ابتداء بھی جماعت اسلامی سے ہوئی اور اپنی زندگی کا آخری سانس بھی انہوں نے اسی جماعت سے وابستگی کے لمحوں میں لیا۔ ان دنوں ہر طرف لوٹے سیاستدان دندناتے نظر آرہے ہیں اور ہر کوئی ان کے لئے اپنی آغوش وا کئے ہوئے ہے۔ اب سیاسی لوگ کم اور بیوپاری زیادہ نظر آتے ہیں۔ پروفیسر غفور احمد اس نوع کے ”سیاست دانوں“ کے گناہوں کا کفارہ تھے۔ پروفیسر صاحب کے لئے محبت اور احترام کی ایک بڑی وجہ ان کا جمہوریت سے عشق تھا۔ وہ جماعت اسلامی میں موجود اس گروپ کے سرخیل تھے جو کسی بھی صورت اور کسی بھی مقصد کے لئے جمہوریت پر آنچ نہیں آنے دینا چاہتا تھا۔ وہ صرف اور صرف جمہوری جدوجہد کے لئے اپنے نظریاتی اہداف تک رسائی کے خواہشمند تھے۔ میری معلومات کے مطابق انہیں جنرل ضیاء الحق کی طرف سے دیا گیا اسلام کا جھانسہ بھی منظور نہیں تھا چنانچہ وہ ضیاء الحق کے ریفرنڈم میں حصہ لینے کے بھی خلاف تھے مگر جب پاکستان قومی اتحاد نے جنرل ضیاء الحق کی حکومت میں وزارتیں قبول کرنے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ انتخابات کے لئے فضا ساز گار بنائی جاسکے تو اس میں نوابزادہ نصر اللہ خان کی جماعت کے حصے میں دو وزارتیں، مسلم لیگ کے حصے میں چار ، مفتی محمود کی جمعیت علمائے اسلام کے ”کوٹے“ میں تین اور جماعت اسلامی کے حصے میں تین وزارتیں آئیں تو پروفیسر غفور احمد کو جماعتی ڈسپلن کے تحت وزارت قبول کرنا پڑی۔ یہ بہرحال دکھ کی بات ہے کہ پاکستان قومی اتحاد کے نہایت زیرک سیاستدان ضیاء الحق کی سیاست سے مات کھا گئے کیونکہ حالات صرف وزاراتوں کے لئے ”سازگار“ ہوئے تھے۔ انتخابات کے لئے نہیں۔
مرحوم و مغفور پروفیسر غفو ر احمد نے نہ صرف یہ کہ صاف ستھری سیاسی زندگی گزاری بلکہ وہ عام زندگی میں بھی ایک نہایت متقی اور پارسا شخص تھے۔ برادرم مکرم رؤف طاہر روای ہیں کہ پروفیسر صاحب ان کی جدہ موجودگی کے دوران عمرے کے لئے تشریف لائے تو مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کے لئے گئے ۔مسجد نبوی اور حرم شریف میں آپ جو جوتے پہن کر جاتے ہیں واپسی پر آپ کے لئے اپنا جوتا تلاش کرنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے، چنانچہ لوگ عموماً ایک دوسرے کے جوتے پہن لیتے ہیں ،پروفیسر صاحب نماز پڑھ کر باہر آئے تو تلاش کے باوجود انہیں ا پنا جوتا نہ ملا۔ یہ شدید گرمی کے دن تھے زمین شعلے اگل رہی تھی لیکن پروفیسر صاحب نے کسی اور کا جوتا پہننے کی بجائے اپنے ہوٹل تک ننگے پاؤں جانے کا فیصلہ کیا، جب وہ ہوٹل پہنچے تو بے ہوش ہوگئے۔ ان کے دونوں پاؤں بری طرح جھلس گئے تھے چنانچہ کئی دنوں تک ان کے پاؤں میں پٹیاں بندھی رہیں۔ مجھے لگتا ہے وہ غلط صدی میں پیدا ہوگئے تھے کہ ان کے اعمال قرون اولیٰ کے مسلمانوں ایسے تھے۔
پروفیسر غفور احمد کی سیاست میں نفرت کا کوئی عنصر شامل نہیں تھا ۔ذاتی زندگی میں وہ ایسے نظریات کو دخیل نہیں ہونے دیتے تھے جو انسانوں میں تفریق پیدا کرے، چنانچہ وہ سب کے ساتھ شائستگی سے پیش آتے اور جماعت یا جماعت سے باہر کے لوگوں کے دکھ سکھ میں بھی شریک ہوتے جب کراچی میں میرے برادر بزرگ ضیاء الحق قاسمی کا انتقال ہوا تو میں حیران رہ گیا جب پروفیسر صاحب اپنی علالت اور ضعیف العمری کے باوجود مجھے سے تعزیت کے لئے تشریف لائے حالانکہ میرے ان کے ساتھ کوئی ذاتی تعلقات نہیں تھے اور نہ جماعت سے میرا کوئی تعلق تھا۔ اب مجھے سمجھ نہیں آرہی میں ان کی تعزیت کس سے کروں، تاہم ان تمام سیاستدانوں اور افراد سے پروفیسر غفور احمد کی تعزیت کرتا ہوں جو جمہوری قدروں، شائستہ رویوں اور امانت و دیانت کے اصولوں پر یقین رکھتے ہیں اور ان پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ آئیں ان کی مغفرت کے لئے اپنے ہاتھ دعا کے لئے بلند کریں۔
تازہ ترین