• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ حقیقت ہے کہ وہی ریاستیں استحکام، مضبوطی، ترقی اور خوشحالی حاصل کرتی ہیں جن کے ادارے مضبوط و مستحکم ہوں اور آئین کی حدود سے تجاوز نہ کریں۔ یہی وہ راہ ہے جس پر ہمیں چلنا ہو گا تاکہ وطن عزیز بحرانوں پر قابو پا کر ایک مضبوط و مستحکم ریاست بن سکے۔ جمعرات کے روز سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے اعزاز میں الوداعی فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں نئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی اسی راہ پر گامزن ہونے کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ جھوٹے مقدمات، جھوٹے گواہوں، انصاف میں تاخیر کے خلاف ڈیم بنانا چاہتا ہوں، میں بھی قرض اتارنا چاہتا ہوں عدلیہ میں زیر التواء 19لاکھ مقدمات کا، سول بالادستی اور سویلینز کا احتساب جمہوری استحکام کے لئے ضروری ہے، میثاق حکمرانی کیلئے صدر کی زیر قیادت چوٹی کی پارلیمانی، عدالتی اور انتظامی قیادت بشمول فوج اور ایجنسیوں کے مابین مباحثہ ہونا چاہئے، لاپتا افراد اور جبری گمشدگیوں کے قومی وحدت اور ملک کے انتظامی آئینی انتظام پر منفی اثرات ہوں گے۔ ججوں کی کمی کے مسئلے پر توجہ نہیں دی گئی۔ سوموٹو کا اختیار بہت کم اور صرف ان قومی معاملات میں ہو گا جہاں کوئی دوسرا حل نہ ہو۔ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کی گنجائش ہونی چاہئے، پالیسی معاملات میں عدالتوں کی مداخلت پر بھی بات ہونی چاہئے، اب وقت آ گیا ہے کہ ایک چارٹر آف گورننس تشکیل دیا جائے کہ آئندہ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرانا، اس ساری پریکٹس کا مقصد آئین، قانون اور جمہوریت کو مضبوط بنانا ہے تاکہ ریاست کے تمام ستون ملکی شہریوں کے اصل مسائل پر توجہ دے سکیں۔ اس بات کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ ادارے اپنی حدود سے تجاوز کر کے ایک دوسرے کے معاملات میں مخل ہوں تو صرف پیچیدگیاں ہی پیدا نہیں ہوتیں بلکہ بسا اوقات نزاع کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ اس اعتبار سے خود عدلیہ کو پچھلے کچھ عرصے سے تنقید کا سامنا رہا، خاص طور پر اس کے از خود نوٹس لیے جانے کے اختیار کے زیادہ استعمال کو مناسب قرار نہ دیتے ہوئے عدلیہ کو باور کرانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ وہ زیر التواء مقدمات نمٹانے کی سعی اور انتظامی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے ۔ اس پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کا بیان بھی سامنے آیا کہ انتظامی اختیارات میں بہت زیادہ مداخلت نے پیچیدگیاں پیدا کیں۔ سابق چیف جسٹس کے سوموٹو ایکشن لینے،اسپتالوں کے دورے کرنے اور ایسے ہی دیگر اقدامات پر بھی کہا گیا کہ اس سے ان اداروں پر فوری مثبت اثرات اور تحرک تو ممکن ہے لیکن اس کے دوررس نتائج اس لئے بہتر نہیں ہوتے کہ پھر ادارے عملی طور پر اپنی کارکردگی دکھانے کے بجائے کسی اور طاقت کے اشارے کے منتظر بلکہ دست نگر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ بعینہٖ عدلیہ کے بہت سارے ریمارکس کے بارے میں بھی بحث ہوتی رہی کہ ان میں توازن کا خیال رکھا جانا چاہئے تھا کہ ایسے ریمارکس سے معاشرے میں ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ خیر اب یہ باتیں ماضی کا حصہ ہو چکیں اور ان پر مزید تبصروں اور تجزیوں کی بجائے مستقبل کے اس لائحہ عمل کو بروئے کار لانا ہو گا جس کا اظہار چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنی تقریر میں کیا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ ہمیشہ آئین اور قانون کے محافظ رہے ہیں جس کا ثبوت ان کے متوازن فیصلے ہیں جس کا پرتو ان کی فل کورٹ ریفرنس میں کی جانے والی تقریر ہے، جو پاکستان کے کم و بیش تمام مسائل کا احاطہ ہی نہیں کرتی بلکہ ان کے حل کی موثر تجویز سے بھی مزین ہے۔ یہ تقریر عدلیہ کیلئے مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہے، جس سے یہ امید بے جا نہیں کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ آئین اور قانون کی بنیاد پر ایک نئے سماج کی تشکیل میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوں گے۔ حکومت کو ان کی تجویز پر بغیر کسی حیل و حجت کے عمل پیرا ہونا چاہئے کہ اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ہے۔ خاص طور پر چارٹر آف گورننس کی تشکیل وطن عزیز کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور معاشی استحکام میں خشت اول ثابت ہو سکتی ہے، اس ضمن میں جس قدر جلد عملی اقدامات شروع کر دیئے جائیں اتنا ہی بہتر ہو گا۔

تازہ ترین