• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ صدیوں پرانی حقیقت ہے کہ افغانستان اور پاکستان کی سرزمین پر بسنے والے لوگ مذہب، ثقافتی اور تہذیب و تمدن کی مشترکہ اقدار کی بنیاد پر ہمیشہ آپس میں ملتے جلتے اور ہر خوشی غمی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ آپس کی رشتہ داریاں، تجارت، آزادانہ نقل و حرکت سے قیامِ پاکستان کے بعد بھی دونوں ملکوں کے درمیان محض نام کی سرحد قائم رہی، تاہم دہشت گردی کے نتیجے میں افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کے داخل ہونے کے بعد دشمن نے صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھایا، ایک طرف افغانستان دوسری طرف پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ہمارا 20برس کا طویل عرصہ دہشت گردی کےخلاف جنگ میں گزر گیا جس میں ہزاروں قیمتی جانوں کے ساتھ کھربوں روپے مالیت کا نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا، تاہم امریکہ کو یہ بات تسلیم کرنا پڑی کہ دونوں ملکوں کے عوام میں صدیوں پرانے رشتوں کی وجہ سے ان کے درمیان فاصلے نہیں بڑھ سکتے جس کی وجہ سے وہ افغان مفاہمتی عمل میں پاکستان کی معاونت کو ناگزیر سمجھتا اور دہشت گردی میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف بھی کرتا ہے۔ ان تمام باتوں کے تناظر میں جمعرات کے روز امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد اور افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے کمانڈر جنرل آسٹن اسکاٹ ملر نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے راولپنڈی میں ملاقات کی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اس ملاقات میں علاقائی سیکورٹی کی صورتحال اور افغان امن و مفاہمتی عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ امریکی وفد نے امن عمل کیلئے پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔ گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بجا طور پر کہا کہ افغانستان میں امن پاکستان کیلئے اہم ہے اور پاکستان خطے میں امن و استحکام کیلئے کوششیں جاری رکھے گا۔ آرمی چیف کی اس گفتگو کے پیچھے بھی پاکستان کا افغانستان سمیت ہمسایہ ملکوں کے ساتھ خیر سگالی کا جذبہ دکھائی دیتا ہے۔ امید ہے کہ اس ملاقات کی روشنی میں پاکستان، امریکہ اور افغانستان کے مابین برف مزید پگھلے گی۔

تازہ ترین