• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب کے کرسمس کا دن گرج چمک سے شروع ہوا۔ بارش کیا برسی گویا بڑا دن منانے والوں کی حسرتوں پر اوس پڑ گئی۔ ان بے چاروں کا پرانا ارمان ہے کہ کرسمس کے دن آسمان سے تازہ تازہ برف گرے، سارا منظر سفید ہوجائے، پورا ماحول صاف ستھری سفید چادر اوڑھ لے اور بچّے خوشی سے دیوانے ہو جائیں، میدانوں میں دوڑیں، برف پر پھسلیں، ایک دوسرے پر برف کے گولے پھینکیں اور برف کا بُت بنا کر اس کے سر پر ہیٹ رکھیں، اس کے گلے میں مفلر ڈالیں ، منہ میں بجھا ہوا پرانا پائپ لگا کر کرسمس کے ترانے گائیں۔ بچّوں کی اس بے پناہ شادمانی میں گھر کے کتّے بھی شریک ہوں اور اچھلیں، کودیں اور بلا سبب بھونکیں۔ گھر کی کھڑکیوں سے جھانکتی مائیں خوشی سے کھل اٹھیں اور جن بچّوں نے ابھی ابھی چلنا سیکھا ہے ان کی انگلی تھام کر بابا جان برف پر چلائیں۔ پھر چرچ کی گھنٹیاں بجیں اور جلدی جلدی نیا لباس پہنا جائے ، اونچے بوٹ چڑھائے جائیں اور ہر گھر سے نکلنے والی یہ چھوٹی بڑی ٹولیاں علاقے کے گرجا گھر کا رخ کریں۔
افسوس کہ ایسے منظر پہلے کبھی نظر آتے ہوں گے۔ اب تو جب سے دنیا کے موسم نے اپنے تیور بدلے ہیں، وہ سفید کرسمس کے نظارے صرف کرسمس کارڈوں پر رہ گئے ہیں۔ اِس سال جب کرسمس آیا ہے، آدھا برطانیہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ لندن تو یوں بھی گرم شہر ہے، یہاں برف کم ہی گرتی ہے۔ اس بار کرسمس کی صبح آنکھ چرچ کی گھنٹیوں سے نہیں بلکہ گرج چمک سے کھلی اور بارش کا شور صاف کہہ رہا تھا کہ اس کے ہمراہ اولے بھی برس رہے ہیں۔ باہر سڑک پر سنّاٹا تھا اور بچّے گرم بستروں سے نکلنے سے صاف انکار کر رہے تھے۔ بجلی چمکے تو بچّے یوں بھی سہم جاتے ہیں۔
اسباب کچھ بھی ہوں، دنیا کا موسم اب ویسا نہیں رہا جیسا پہلے کبھی ہوا کرتا تھا۔ کارخانے کی چمنیوں اور موٹر گاڑیوں کے پچھواڑے سے نکلنے والے دھوئیں نے دنیا کی فضا کو آلودہ کردیا ہے اور ماحول کا یہ حال ہے جیسے چکرا کر رہ گیاہو۔ کہیں سوکھا پڑا ہے تو جنگل کے جنگل خشک ہوئے جاتے ہیں اور کہیں مینہ برسنے پر آیا ہے تو ریگستانوں میں سیلاب آگئے ہیں اور لوگ ڈوب کر مر رہے ہیں۔ پھر یہ کہ طوفانوں نے اپنے آنے کے دن بدل دیئے ہیں ، اپنے پرانے ٹھکانے اور راستے تبدیل کردیئے ہیں، پہلے یہ بستیوں سے بچ کر نکل جایا کرتے تھے کیونکہ لوگوں نے بستیاں بساتے ہوئے خیال رکھا ہوگا کہ طوفانوں کی گزرگاہوں سے پرے بسائیں مگر اب طوفان جیسے پرانے حساب کتاب چکانے کے لئے بھرے پُرے شہروں کے وسط میں بڑی بڑی شاہراہوں سے اس شان سے گزرتے ہیں کہ انہیں نہ کسی پروٹوکول کی پروا ہے نہ سیکورٹی کی فکر۔
برطانیہ میں ایسا کم ہی ہوتا تھا مگر اب ہونے لگا ہے کہ دریا ابل پڑتے ہیں اور ندی نالے بے قابو ہو جاتے ہیں۔ بارش اگرچہ یہاں کی ہمیشہ سے بدنام ہے لیکن اس شدّت سے برستی ہے کہ شہروں کی سڑکوں پر کشتیاں چلتی ہیں اور ہنس کے جوڑے شاپنگ پلازہ کی بالائی منزلوں میں تیرنے لگتے ہیں۔ یہ لوگ سمجھدار ہیں، اس صورتحال کے سبب اچھی طرح جانتے ہیں اور وہ یہ کہ اتنی عمارتیں بنا دی ہیں اور اس قدر نئی بستیاں آباد کردی ہیں کہ کنارے توڑ کر بہہ نکلنے والے ندی نالوں کے پانی کے بہاؤ کے جو قدرتی راستے ہوا کرتے تھے وہ بھر گئے ہیں اور بند ہو گئے ہیں۔ پانی کو بہہ نکلنے کے لئے جو راستہ ملا کرتا تھا وہاں ، خیر کوڑا کرکٹ تو نہیں بھرا ہے لیکن عمارتیں کھڑی ہیں اور پانی بے شمار گھروں کی نچلی منزلوں میں چلا آیاہے ۔ قالین ڈوب گئے ہیں، فرنیچر تیرنے لگا ہے اور اہل خانہ بالائی منزل میں بیٹھے امدادی کارکنوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ اوپر سے قیامت یہ کہ اس ملک میں جہاں مکان رات دن فروخت ہوتے ہیں یا خریدے جاتے ہیں، سیلاب کی زد میں آنے والے علاقے کے مکان اب دو کوڑی کے بھی نہیں رہے۔ انہیں کون بازار میں لائے گا اور کون خریدے گا۔ مزید یہ کہ بیمے والے دس گنے پیسے مانگیں گے ، وہ کون دے گا۔ ان بے چاروں کی تو قسمت پھوٹی ہوئی ہی سمجھئے۔
ہاں،یہ لوگ ہم سے یوں جدا ہیں کہ ایسے ہنگامی حالات سے نمٹنے کا بندوبست کر کے رکھتے ہیں۔ ہر چند کہ اب وہ پہلے جیسی دولت کی ریل پیل نہیں ہے مگر یہ لوگ اس حال میں بھی سوا لاکھ کے ہیں۔ کشتیاں لے آتے ہیں، ہیلی کاپٹر اڑان بھرنے لگتے ہیں ، راتوں کے جاگے ہوئے امدادی کارکن بڑوں بوڑھوں کو ربڑ کی کشتیوں میں بٹھا کر ان کو کھینچ رہے ہوتے ہیں اور میڈیا والوں کو بتا رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں خود اپنے گھر والوں کی خبر نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ وہ یہی برطانیہ ہی تو تھا کہ جب جولیئس سیزر کی فوجیں یورپ کو فتح کرتی ہوئی اور فرانس پر اپنا تسلّط جماتی ہوئی رودبار انگلستان کے ساحل پر پہنچیں تو شاہ روم نے انہیں رودبار عبور کرکے برطانیہ پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ فوجوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہاں کیچڑ بہت ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد برطانیہ نے خود کو ایسا سنوارا اور نکھارا کہ اس ملک کے بارے میں مشہور ہو گیا کہ یہاں بارش کا پانی چند لمحوں سے زیادہ نہیں ٹھہرتا لیکن پھر وہی ہوا جو دنیا کے بہت سے علاقوں میں آج تک ہو رہا ہے۔ آبادی بڑھی اور وہ بھی اس دھج سے کہ زمین پر تل دھرنے کو جگہ نہ رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جو دریا ابلے وہ اپنی معمول کی سطح پر واپس آنے سے انکار کرنے لگے۔اس وقت کرسمس ڈے کی دوپہر ہونے کو ہے اور میرے کمرے کی کھڑکی پر بارش کی بوندیں مسلسل دستک دیئے جارہی ہیں۔ یہ میر ے روز کے معمول کے مطابق چہل قدمی کا وقت ہے اور دل اصرارکئے جارہا ہے کہ اب باہر نکلو لیکن کوئی کان میں کہہ رہا ہے کہ اپنے وجود کے اندر بیٹھے ہوئے جولیئس سیزر سے کہہ دو کہ باہر کیچڑ بہت ہے۔
تازہ ترین