• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کینیڈا کے شہری ڈاکٹر طاہر القادری نے”پاکستانی ریاست بچانے“ کا جو نعرہ عین انتخابی تیاریاں شروع ہونے پر لاہور آکر بلند کیا ہے کیا وہ الیکشن2013ء کے تناظر میں قومی سیاست کا کوئی اہم فیکٹر بننے والا ہے؟ پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والے ہر شہری اور تجزیہ نگار کے ذہن میں یہ وہ تازہ سوال ہے جو قادری صاحب کے مینار پاکستان پرکامیاب جلسے سے ابھرا ہے۔ ڈاکٹر قادری ابلاغ عامہ کی سائنس کا مطالعہ کئے بغیر ایک کامیاب Public mobalizerہیں۔ وہ اپنے زور کلام سے سیاست میں دلچسپی رکھنے والے لیکن تجزیے کی کم صلاحیت رکھنے والے طبقے کے بڑے حصے میں اپنی عقیدت پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔قادری صاحب پاکستانی قومی سیاست کے ارتقاء سے یکسر محروم نظام بدکے سخت ناقد ہیں لیکن وہ اس پڑھے لکھے طبقے کے اس بڑے حصے کو متاثر کرنے میں ناکام ہیں جو انہی کی طرح موروثی سیاسی نظام اور اس میں نو دولتیوں ،جاگیرداروں اور حاکموں کے ہر حال میں وفاداروں کے غلبے کا ناقد ہے۔ اس کی وجہ خود علامہ صاحب ہیں ،بہت سی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ان کی یہ کمزوری بڑی نمایاں ہے کہ وہ شعوری کوششوں سے سماج میں مقام بلند حاصل کرنے میں بہت جلد باز اور بیتاب رہے ہیں ۔ان کی شریف خاندان، جس نے انہیں موجودہ مقام تک پہنچنے کی پہلی سیڑھی دی سے طوطا چشمی بلکہ احسان فراموشی کی حدتک ان (شریف برادران) پر جھوٹے الزامات نے باشعور طبقے میں ان کے امیج کو بہت نقصان پہنچایا، ڈاکٹر قادری کے یہ الزامات کوئی سٹریٹ سٹوریز نہیں بلکہ اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی صورت میں سامنے آئے اور اس کے باوجود ڈاکٹر قادری کامیابیوں کے سفر پر گامزن رہے۔ انہیں راستوں سے راستہ بنانا آتا ہے۔ وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے ہیں اور اسے پالیتے ہیں۔ ان میں مولانا مودودی جیسے پائے کے بین الاقوامی مذہبی سکالر بننے کی خواہش تو بہت پرانی ہے لیکن وہ ملک کے پڑھے لکھے طبقے میں مولانا مودودی کا وہ اثر قائم کرنے میں ناکام رہے جو مولانا نے70ء کے عشرے میں لیفٹ نہیں بلکہ فیوڈل لارڈ کو زبردستی انقلابی لیڈر بنانے والے محض لبرل سیکولر طبقے کے مقابل جماعتی نظم سے باہر کے پڑھے لکھے متوسط طبقے میں قائم کیا لیکن ڈاکٹر قادری ملک بھر میں اور بیرونی ممالک میں اپنے ادارہ منہاج القرآن کا وسیع تر تنظیمی ڈھانچہ بنانے میں کامیاب ہوئے جو یقینا ایک بڑی کامیابی ہے۔
ان کی پاکستان آمد پر مختلف ذرائع سے یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، ڈنمارک اور کئی دوسرے ملکوں میں ان مذہبی سکالرز کے ساتھ رابطے میں ہیں جو دہشتگردی کی جنگ میں اپنے حکومتوں کے معاونین ہیں۔ تنظیمی ڈھانچے کو چلانے کے لئے ان کے پاس پیسے کی بھی کمی نہیں۔ بیرون ملک پاکستانی کمیونٹی بھی ادارہ منہاج القرآن کی بڑی مالی معاون ہے، ڈینش حکومت بھی رہی ہے ،دہشتگردی کی جنگ میں ،خود کش حملوں کے خلاف ان کے 431صفحات پر مشتمل طویل ترین فتوے کو بھی مغرب میں پذیرائی ملی ہے۔ اس کے بعد وہ تیزی سے بین الاقوامی اہم سیاسی مذہبی حلقوں میں لنک اپ ہورہے ہیں۔اب جو اپنی پاکستان آمد کی دو ماہ کی موثر پبلسٹی کے بعد ان کی دھماکہ خیز آمد ہوئی ہے اس نے قومی انتخابات سے پہلے یکسر نیا منظر نمودار ہونے کی امید پیدا کی ہے۔ یہ نہیں کہ طاہر القادری انتخاب لڑیں گے یا کہ ان کی تنظیم سیاسی بن کر کوئی سیاسی منظر پر چھاجائے گی لیکن وہ کئی لحاظ سے پارٹیوں کی انتخابی پوزیشن کو متاثر کرسکتی ہے بشرطیکہ کوئی سیاسی جماعت ان کی سیاسی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ پنجاب اور سندھ کے شہروں میں اب ادارہ منہاج القرآن کا نیٹ ورک بڑا ہے۔ یہ جماعت اسلامی کے تنظیمی ڈھانچے سے(ان صوبوں میں) کم نہیں۔ ایم کیو ایم کا پورا ایک وفد الطاف بھائی کی ہدایت پر لاہور میں علامہ قادری کے جلسے میں بہت رسمی انداز میں شریک ہوا ہے۔ خبر ہے کہ خان اعظم نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف کسی تنقید سے باز رہنے کے لئے کہا ہے۔ موجودہ انتخابی نظام اور سٹیٹس کو کے خلاف مسلسل سیاسی ابلاغ تینوں ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور ڈاکٹر قادری کی قدر مشترک ہے۔ یہ قدر مشترک کسی ان ہونی کو ہونی میں تبدیل نہ کردے۔ مینار پاکستان کے جلسے پر طاہر القادری صاحب کی تندوتیز تقدیر کا جو سب سے اہم اور مشترک ردعمل آیا ہے وہ یہ ہے کہ”باتیں تو صحیح کہی ہیں“ گویا علامہ قادری کی شخصیت اور حیثیت جو بھی کچھ ہے ان کی تقریر کے مندرجات ٹھک سے سب کے دل میں لگے ہیں۔ ماسوائے ان سیاسی رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کے جو سٹیٹس کو میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی کا ردعمل بڑا عملی ہے کہ 10جنوری تک کی ڈیڈ لائن سے علامہ صاحب نے انتخابی اصلاحات کے لئے حکومت پر جو دباؤ ڈالا ہے وہ قابل عمل معلوم نہیں دیتا لیکن جو تنقید علامہ قادری نظام پر کررہے ہیں وہ امیر جماعت بھی مسلسل کررہے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ جماعت اب اتنی عملی معلوم دیتی ہے کہ وہ سٹیٹس کو کی کسی سیاسی قوت کے ساتھ بھی انتخابی گٹھ جوڑ میں نظر آتی معلوم دیتی ہے ۔یہ بھی ذہن نشین رہے کہ بڑی تعداد میں حلقہ ہائے انتخاب میں اب ادارہ منہاج القرآن سے وابستہ کم از کم اتنے فیصد ووٹرز ہیں جو انتخابی نتائج کو متاثر کرسکتے ہیں۔ خصوصاً ان حلقوں میں جہاں برابر کی پوزیش کے دو امیدوار موجود ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر علامہ قادری کی خواہش کے مطابق طویل مدت کی نگران حکومت قائم نہیں ہوتی اور انتخاب ہی ہوتے ہیں تو کیا علامہ صاحب ”اندھوں میں کانا راجہ“ کے اصول پر کسی سیاسی قائد کو قبول کرکے اپنے کارکنوں کو ووٹ دینے کے لئے کہیں گے یا انتخابی عمل کو یکسر نظر انداز کریں گے۔ ایم کیو ایم ،تحریک انصاف اور ق لیگ تو لائن میں لگتی معلوم ہورہی ہے کہ وہ اپنے امیدواروں کے لئے ادارہ منہاج القرآن کی حمایت حاصل کریں ۔23دسمبر کے جلسے کے انتظامات، پبلسٹی اور ڈاکٹر قادری کے عوامی استقبال کی تیاریاں جس منظم اور موثر انداز میں کی گئیں اس میں 10جنوری کی ڈیڈ لائن واقعی جذباتی ہی معلوم دیتی ہے لیکن اگر انداز ے کے مطابق 10جنوری سے ٹارگٹ حاصل نہ بھی ہوا لیکن ایک بڑا پریشر پڑگیا تو یہ بھی انتخابی مہم خصوصاً امیدواروں کی سلیکشن کے عمل کو متاثر کرے گا۔ اب تک جو جماعت ڈاکٹر قادری کی آندھی کی طرح آمد سے خائف ہے وہ مسلم لیگ (ن) ہے اور وہ صحیح ہے کہ اگر انتخابی عمل میں ڈاکٹر طاہر القادری نے کوئی اشارہ ن لیگ کے مفاد کے خلاف کردیا تو اس کے مفاد کو نقصان پہنچے گا کیونکہ ووٹرز کا وہ حصہ قادری صاحب دوسری طرف کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے جو ان کے خاموش رہنے پر مسلم لیگ ن کا ہی ووٹر ہوگا۔ یہ ووٹرز ہیں جو اب علامہ صاحب کے حامی نہیں بلکہ معتقد ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ نیا پیدا ہونے والا قادری فیکٹر آندھی ہے یا بگولا ۔یہ یاد رکھا جائے کہ اس کی بیرونی لیکن فاصلے سے معاونت کے اندازے کا گراف مسلسل بڑھ رہا ہے۔
تازہ ترین