• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہ رُخ زاہد

کھیل صحت مند زندگی کے حصول کے لیےنہایت ضروری ہیں ۔یہ صرف تفریح کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اس طرح انسان چاق، چوبند اور صحت مند رہتا ہے لیکن سمجھا یہ جاتا ہے کہ کھیلنا کودناصرف وقت کا ضیاع ہے ،اسی لیے بیش تر والدین بچوںکو صرف تعلیم کی طرف متوجہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں،جب کہ کھیل شخصیت سنوارنے میں بے حد اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ ہر کھیل کے اپنے قوائد و ضوابط ہوتے ہیں ،جو کھلاڑی کو نظم و ضبط کا پابند بناتے ہیں ۔تیز دماغ ، جسم کے اعضاء طاقت ور اور پٹھے مضبوط ہوتے ہیں ، طبیعت بھی ہشاش بشاش رہتی ہے ۔ آج کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میںکھیلوں کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے، کہ نوجوان زیادہ تر وقت موبائل فون یا کمپیوٹر کے سامنے گزارتے ہیں،جس سے ان کی جسمانی ورزش نہیں ہوتی، ان میں بیماریاں پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔کہا جاتا ہے،جس معاشرے میں کھیل کے میدان آباد ہوتے ہیں،وہاںکے اسپتال ویران ہوتے ہیں ۔بدقسمتی سے آج کل کے نوجوان کی توجہ کھیلوںسے ہٹ گئی ہے، اسی لیے کھیل کے میدان ویران ہوگئے ۔اس کی ایک بڑی وجہ اسمارٹ فونز اور ویڈیو گیمزکا استعمال ہے، ارد گرد جہاں نظر دوڑ ا ئیں نوجوانوں کی انگلیاں اسمارٹ فون پر چلتی نظر آتی ہیں ۔یہ طرز زندگی ہمارے میدانوں کو غیر آباد کر کے گیمنگ زون کو آباد کررہا ہے، جس کے مضر اثرات صحت پر مرتب ہورہے ہیں، کم عمری میں شوگر ،دل کے امراض جنم لے رہے ہیں ایک جگہ بیٹھے رہنے سے نوجوان نسل میں موٹا پا بڑھ رہا ہے۔پاکستان کی گلی کوچوں میں کھیلے جانے والے ماضی قریب کے چند مشہور ترین مقامی کھیلوں میں لوگوں کی دل چسپی میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔جن میں رسہ کھنچائی، آنکھ مچولی، کنچے، پِٹو گرم، کھو کھو، کوڑا جمال شاہی، چور پولیس،سائیکل ریس، دوڑ لگانا، لمبی چھلانگیںوغیرہ، جہاں کہیں کوئی صاف خالی پلاٹ یا کھیل کا میدان ہوتا، وہاں کبڈی، کشتی، نشانہ بازی، تیر کمان، غُلیل چلانااور پہل دوج وغیرہ کھیلی جاتی ۔یہ کھیل ہر عمرکے لڑکے ، لڑکیوں میں مقبول تھے،اس سےنہ صرف ان کی ذہنی ورزش ہوتی تھی، بلکہ جسم بھی چست رہتا ۔کھیل ہی کھیل میں نوجوان یہ سیکھ لیتے تھے کہ ’’ ناکام وہ نہیں ہوتا ،جو ہار جاتا ہے ،بلکہ ناکام وہ ہوتا ہے ،جو اپنی شکست کو تسلیم نہ کرے اور دوسروں کواپنی شکست کا ذمےدار ٹھہرائے۔ ‘‘ہماری نسل نو میںسوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا فقدان، تعلیمی مراحل میں پیچھے رہ جانا، ایک دوسرے پر عدم اعتماد،ٹیم ورک میں ناکامی، ساتھیوں کی نفسیات جذبات اور احساسات کو نہ سمجھ پانا،جیسے منفی رویّےاسی وجہ سے پنپ رہے ہیں، کہ وہ کھیل کود سےدور ہوتے جا رہے ہیں۔مقتدر حلقوں کو چاہیے کہ نوجوانوں میں کھیل کود کو فروغ دینے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوششیں کریں، کھیلوں کے میدان بنائیں اور انہیں آباد کیاجائے، تاکہ نسل نو ،تن درست و توانا ہو۔

تازہ ترین