• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ہندو کونسل کے زیر اہتمام اجتماعی شادی کا مختصر احوال

تصاویر: نقیب الرحمٰن

دنیا کے تمام مذاہب میں شادی کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے گرچہ دنیا بھر کے مذاہب اور علاقائی تناظر میں شادی کے رسم و رواج مختلف ہوتے ہیں تاہم دنیا بھر میں اس دن کو خوشی سے تعبیر کیا جاتا ہے ، شادی دو افراد کے نہیں بلکہ دو خاندانوں کا ملاپ ہوتا ہے ، موجودہ حالات میں عزت و توقیر کے ساتھ بیٹیوں کی رخصتی ایک خواب بنتی جارہی ہے مہنگائی نے جہاں غریب افراد کیلئے

 دیگر خوشیوں اور تہواروں کو ایک حسرت میں تبدیل کر دیا ہے وہاں شادی جیسے مذہبی اور سماجی بندھن کو بھی غریب اور متوسط طبقے کیلئے کوہ گراں بنا دیا ہے ، بیٹی کی پیدائش خوشی کا سبب ضرور ہوتی ہے تاہم بعض گھرانوں میں بیٹی کی رخصتی اور شادی کے موقع پر جہیز متوسط اور غریب گھرانوں کیلئے ایک ڈرائونا خواب کی صورت اختیار کر لیتی ہے میاں بیوی زندگی بھر اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر بیٹی کے جہیز کیلئے پیسے جوڑتے ہیں تب بھی زندگی بھر کی کمائی بیٹی کے جہیز کیلئے ناکافی ثابت ہوتی ہے ، اس دکھ درد کا احساس کرتے ہوئے معاشرے کے چند باہمت اور پرخلوص افراد نے غریب نادار بچوں کی شادی کا بیڑا اٹھایا

ان میں سے ایک نام رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی کا بھی ہے جنہوں نے گزشتہ گیارہ برس کے دوران گیارہ سو ہندو جوڑوں کو اس طرح رخصت کیا جیسے اپنے بچوں کو رخصت کیا جاتا ہے گزشتہ دنوں پاکستان ہندو کونسل نے ریلوے گرائونڈ آئی آئی چندریگر روڈ پر 79 جوڑوں کی اجتماعی شادی کا اہتمام کیا یہ رنگا رنگ تقریب ہر لحاظ سے یاد گار تقریب تھی وسیع و عریض پنڈال کو برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا ، برقی قمقمے گیت، خوبصورت لباس میں ملبوس باراتی، جوڑوں کیلئے بنائے گئے علیحدہ علیحدہ منڈت خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے، اس موقع پر ڈاکٹر رمیش کمار کا کہنا تھا کہ انہیں غریب و نادار جوڑوں کی شادی کرکے روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ میرا ٹارگٹ ہر سال سو جوڑوں کی شادی کرانا ہے ، ان بچیوں کو میں اپنی اولاد کی طرح سمجھتا ہوں۔

شادی ایک ایسا مذہبی و سماجی فریضہ ہے جو دنیا کے ہر مذہب ہر علاقے اور ہر قوم میں اپنے اپنے طور طریقوں کے مطابق ادا کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر مذہب نے گھر بسانے پر بہت تلقین کی ہے کیونکہ اچھے خاندانی ماحول میں تربیت پانے والا باشندہ معاشرے کی بہتری میں فعال کردار ادا کرسکتا ہے۔ہندو مت میںطلاق کا تصور نہیں اور شادی کو زندگی بھر کا بندھن قرار دیا گیاہے ،ہندو شادی کے تین اہم ترین مقاصدمیں دھرم (فریضہ)، پرجا (اولاد) اور رتی (لطف) شامل ہیں جن میں فریضے کی ادائیگی کو اولیت دی گئی ہے ، برہما ویواہ کے مطابق ایک باپ اپنی بیٹی کو اچھے کردار اور پڑھے لکھے لڑکے کو بیاہ دیتا ہے۔ ہندو مذہبی تعلیمات کے تحت کسی بھی فرد کی اولین ذمہ داری گھر بسانا اور بچوں کی بہترین تربیت کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والا اپنی تمام پیشہ ورانہ مصروفیات کے باوجود فیملی کے ساتھ وقت گزارتا ہے، وہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ خاندانی نظام کو مضبوط رکھنے میں ہی سب کی بقاہے۔

میں نے گزشتہ برس اپنے کالم میں تذکرہ کیا تھا کہ برصغیر پاک و ہندکی ایک اہم پہچان مضبوط خاندانی نظام رہی ہے، بالغ باشندوں کی شادی کروانا ہمیشہ سے سمجھدار بڑے اپنی ذمہ داری سمجھتے رہے ہیں مگر دورحاضر میں جہاں ہمارا معاشرہ دیگر شعبوں میں گراوٹ کا شکار ہوا وہیں شادی اورخاندانی نظام بھی شدید متاثر ہوا ہے ۔

بیشتر نوجوان بچیوں کے والدین جہیز یا شادیوں کے ہوشربا اخراجات کے متحمل نہ ہونے کی وجہ سے رخصتی سے قاصر ہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق شادی کی ایک تقریب پر ایک طرف سے کم از کم پانچ لاکھ روپے خرچ آتا ہے جو آج کے معاشی حالات میں سفید پوش شہریوں کیلئے نہایت پریشان کن صورتحال ہے، دوسری طرف نوجوان نسل گناہ اور غیر اخلاقی سرگرمیاں میں ملوث ہورہی ہے جسکی روک تھام یقینی بنانا معاشرے کے باشعور طبقات کی ذمہ داری ہے لیکن یہ سب اسی صورت ممکن ہے جب خاندانی نظام کے استحکام اور شادیوں کے رحجان کے فروغ کیلئے مذہبی فریضہ سمجھ کر جدوجہد کی جائے۔

قیام پاکستان سے ہندو کمیونٹی کو درپیش مسائل میں سے ایک اہم ترین مسئلہ شادیوں کے حوالے سے بھی رہا ہے، ایک طویل عرصے تک ہندو شادی ایکٹ نہ ہونے کی بناء پرہندوشہری اپنی شادیوں کی قانونی حیثیت سے محروم رکھے جاتے رہے ہیں، اپنی کمیونٹی کی مشکلات کو مدنظررکھتے ہوئے میں نے گیارہ برس قبل پاکستان ہندو کونسل کے پلیٹ فارم سے ہندو شادیوں کو قانو نی تحفظ فراہم کرنے کیلئے ہندو میرج سرٹیفکیٹس کا اجراء اورسالانہ بنیادوں پر اجتماعی شادیوں کی تقاریب کاسلسلہ شروع کرنے کی ٹھانی۔

خدا کے فضل سے ہر سال کی تقریب گزشتہ تقریبات سے بہترین یادگاری ثابت ہوئی، میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ اجتماعی شادی کے خواہشمند جوڑوں کے والدین مجھ پر اعتماد کرتے ہیں کہ میں ان کی بچیوں کو عزت کے ساتھ رخصت کرونگا ،یہ ایک ناقابل بیان کیفیت ہے کہ میں بیک وقت ایک حقیقی باپ کی مانند تمام دُلہنوں کونیک تمناؤں کے ساتھ رخصت کرتا ہوں اورشہنائیوں کی گونج میں اپنے گھر سے بیٹے کی بارات روانگی جیسے پُرمسرت احساس سے محظوظ ہوتا ہوں۔ 

پاکستان ہندو کونسل کے زیراہتمام رواں برس 79ہندو جوڑوں کوشادی کے مضبوط بندھن میں باندھا گیاہے ، اگر معاشرے کے مخیر طبقات نے اسی طرح تعاون کا سلسلہ جاری رکھا تو میں سمجھتا ہوں کہ عنقریب پاکستان ہندو کونسل اجتماعی شادیوں کادائرہ کار پورے ملک میں وسیع کرنے کے قابل ہوجائے گی۔

یہ امر میرے لئے باعث فخر ہے کہ ملک بھر کے ہندو گھرانے مجھ سے رابطے میں رہتے ہیں کہ میں ان کے بچوں کا گھر آباد کرنے کیلئے اجتماعی شادیوں کا انعقاد کراؤں، لوگوں کا غیرمتزلزل اعتماد میرا حوصلہ بڑھاتا ہے کہ میں اپنے آپ کو خدمت انسانیت اور حق و سچائی کی جدوجہد کیلئے وقف کردوں اجتماعی شای کی تقریب کے موقع پر ڈاکٹر رمیش کماراپنے گھر سے اجتماعی شادی کیلئے ایک جوڑے وجے اور لکشمی کو خود گاڑی چلاتے ہوئے بارات کی صورت میں پنڈال پہنچے جہاں شہنائیوں کی گونج میں بارات کا استقبال کیا گیا، پنڈال میں سندھ کے مختلف اضلاع سے گاڑیوں، بسوں میں باراتی اور جوڑے پنڈال پہنچے جہاں ان کا پرجوش استقبال کیا گیا، اس موقع پر میوزیکل پروگرام منعقد کیا گیا ۔

باراتیوں کا بھنگڑوں، رقص اور ڈھول کی تھاپ پر استقبال کیا گیا، شادی کی تقریب میں ہندو برادری کے نمایاں افراد کے علاوہ ماریشس کے ہائی کمشنر سہیل یاسین سلمان، پائلر کے کرامت علی، پاکستان ہندو کونسل کے منیجنگ کمیٹی کے افراد بھی شریک تھے۔ شادی کی تقریب کے لئے ہر جوڑے کے لئے خوبصورت منڈپ بنایا گیا تھا منڈپ میں پانی (گنگاجل) ، ناریل، چاول کے 16گھر، سماون (لکڑی) ، ناریل، ہندو مذہب کے مطابق گنیش دیوتا کی جگہ سپاری، سونف، اگربتی اور پوجا کا دیگر سامان موجود تھا، پنڈال کو برقی قمقموں سے بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔

شادی کے لئے ایک سو بیس فٹ لمبا اسٹیج بنایا گیا تھا اسٹیج پر ہندو مذہب کے مطابق گنیش دیوتا اور رادھا کشن کی مورتیاں رکھی گئی تھیں۔ شادی کی تقریب میں بڑی تعداد میں خواتین بھی خوبصورت لباس زیب تن کئے موجود تھیں مہمانوں کا استقبال گرما گرم چائے سے کیا گیا دولہا اور دلہنیں خوبصورت عروسی لباس میں ملبوس تھیں ڈاکٹر رمیش کمار نے بتایا کہ ہر جوڑے کو ایک ایک لاکھ روپے تک کا جہیز دیا گیا ہے جس میں فریج، واشنگ مشین، بیڈ روم سیٹ، ٹی وی، جوسر، کراکری، پنکھا، استری، نقد رقم اور دیگر سامان شامل ہے، انہوں نے کہا کہ میں اپنے نئے سال کی ابتدا نادار افراد کی اجتماعی شادیوں سے کرتا ہوں اس سے مجھے خوشی کا احساس ہوتا ہے

 میری زندگی کا مقصد فلاحی کام کرنا ہے نئے سا ل میں سو جوڑوں کی شادی کر کے دعائیں سمیٹتا ہوں، دوسوگھرانے دعائیں دیتے ہیں جس سے میرا سال خوشگوار گزرتا ہے، انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں نادار اور غریب افراد مہنگائی کی وجہ سے شادیاں نہیں کرسکتے لڑکیوں کی عمریں گھر بیٹھے گزر جاتی ہیں میں نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے کہ جو افراد شادیاں نہیں کر سکتے ان کی پاکستا ن ہندو کونسل اپنے خرچ پر شادی کرائے گی، انہوں نے کہا کہ شادی کی مذہب میں بھی بڑی اہمیت ہے انہوں نے مزید کہاکہ میں نے شہر کے تمام اہم افراد سمیت سیاسی جماعتوں کی شادی میں شرکت کا دعوت نامہ بھجوایا تھا تاہم کسی کوفون نہیں کیا کہ وہ بھی اپنی معاشرتی ذمہ داری سمجھ کر اجتماعی شادی میں شریک ہو سکتے تھے۔

انہوں نے کہاکہ اجتماعی شادی کرنے والے جوڑوں کے والدین مجھ پر اعتماد کرتے ہیں کہ میں ان کی بچیوں کو عزت کے ساتھ رخصت کرونگا اور یہ اعتماد میرا حوصلہ بڑھاتا ہے ،یہی میرا سب کچھ ہے میں اس کار خیر کے علاوہ بیوائوں میں سلائی مشینیں اور نوجوانوں میں رکشے بھی تقسم کرونگا آج بھی میں نے نوے رکشے تقسیم کئے ہیں شادی کا منتر ڈاکٹر رمیش کمار نے خود پڑھا جبکہ مہاراج جے کمار نے جوڑوں کو شادی کا منتر پڑھ کر شادی کے بندھن میں باندھا والدین نے بچوں کو رخصت کیا ۔ تقریب میں مہمانوں کو اجرک پہنائی گئی، رخصتی کے موقع پر باراتیوں کو پرتکلف عشائیہ دیا گیا۔

تازہ ترین