• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اختر شیرانی

مبارک مبارک نیا سال آیا

خوشی کا سماں ساری دنیا پہ چھایا

ہزاروں امیدیں نئی ساتھ لایا

ہے بے فکر‘ بے غم ‘ہر اپنا پرایا

پلٹ سی گئی ہے زمانے کی کایا

نيا سال آیا، نیا سال آیا

چمن میں بہاروں کا موسم پھر آیا

ہواؤں نے ہر پھول کو آجگایا

پہاڑوں پہ گھنگور بادل ہے چھایا

گھٹاؤں نے گلزار کا منہ دھلایا

کوئی چونک اٹھا کوئی مسکرایا

نیا سال آیا ، نیا سال آیا

پرندوں نے جنگل ميں منگل منایا

کسی نے نيا آشیانہ بنایا

کوئی چہچہایا کوئی گنگنایا

کوئی دانے چن چن کے کھیتوں سے لایا

کسی نے مسرت سے یہ راگ گایا

نیا سال آیا، نیا سال آیا

کہیں شاخ پر بلبلیں گا رہی ہیں

کہیں نہریں آئینے چمکا رہی ہیں

کہیں ننھی کلیاں کھلی جارہی ہیں

کہیں کچھ بطیں تيرتی آرہی ہیں

سروں پر ہے چھایا گھٹاؤں کا سایا

نیا سال آیا ، نیا سال آیا

مگر اے عقل مند، ہشیار بچّو

مصیبت ميں سب کے مددگار بچّو

ہر اپنے پرائے کے غم خوار بچّو

مجھے يہ بتاؤ سمجھ دار بچّو

کہ تم کو نئے سال نے کیا سکھایا؟

نیا سال آیا ، نیا سال آیا

يہ کہتا ہے پچھلے برس کیا کیا ہے؟

برس دن میں کیا کچھ پڑھا ہے لکھا ہے؟

مشقت کا کیا کام تم سے ہوا ہے؟

یوں ہی کھیل میں وقت کتنا گياہے؟

کمایا ہے تم نے کہ ہے کچھ گنوایا؟

نيا سال آیا ، نیا سال آیا

يہ سوچو کہ اس سال کیا کیا ہے کرنا

مگر ہر دم اس بات پر کان دھرنا

ہے کن علم کی گھاٹیوں سے گزرنا

کہ محنت سنورنا ہے سُستی ہے مرنا

نئے سال نے یہ سبق ہے پڑھایا

نیا سال آیا ، نیا سال آیا

تازہ ترین