• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عروس البلاد کراچی سے رٹ آف گورنمنٹ مکمل طور پر پرواز کر گئی، اب صرف کرسیوں میں حکومتی ڈھانچے سجے رہ گئے۔ کوئی ہے جو کراچی کو انسانی بوچڑخانہ کے بجائے پھر سے اپنی اصلی حالت پر لے آئے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ 19افراد مارے گئے اور یہ نو دس افراد کو زندگی سے محروم کرنا تو روزانہ کا معمول ہے۔ کاروبار ٹھپ پڑا ہے، لوگ گھر سے نکلتے نہیں، نکلتے ہیں تو کہا سنا معاف کرا کے نکلتے ہیں۔ تازہ صورتحال یہ ہے کہ کراچی کے طول و عرض میں ہڑتال جاری ہے۔ تجارتی و کاروباری مراکز بند پڑے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہیں چل رہی، ایک ہنستا بستا شہر تھا، قوم کا کماؤ پتر تھا، اب شہر خموشاں بنتا جا رہا ہے۔ حکومت امن بحال کر سکتی ہے مگر سیاسی تحفظات کے باعث کچھ نہیں کرتی۔ آج کراچی میں حکومت کا عمل دخل بند کر دیا جائے تو شہر کے بند تالے کھل سکتے ہیں۔ جب اپنے، اپنے نہ رہیں تو غیروں کو بھی شہہ ملتی ہے، اسلئے کراچی کو دہشت زدہ بنانے والوں کو ہر طرح سے امداد بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ اسلحہ کی بھرمار ہے اور اب تو وزیر داخلہ نے اسلحہ لائسنس کے اجراء پر عائد پابندی بھی اٹھا لی ہے۔ وہ کراچی کو اسلحہ سے خالی نہیں بھر تو سکتے ہیں۔ اسلحہ، اسلحہ ہوتا ہے چاہے قانونی ہو یا غیر قانونی، کیونکہ دونوں چلانے پر چلتے اور بے گناہوں کو خاک و خون میں نہلا سکتے ہیں، کیا حکمرانی صرف تعیش اور دولت کمانے کا نام ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ نئی لوٹ مار کیلئے نئی تیاریاں کیوں؟ کیا انتخابات محض ڈاکہ ڈالنے اور خوں ریزی کا پرمٹ ہے، جو عوام اپنے ہاتھوں اپنے قاتلوں کو دیتے ہیں۔ کراچی کے حالات درست کریں، مگر کون کرے گا؟ کس کو صدا دی ہے، کس کو پکارا ہے #
جی نہیں، آپ سے کیا مجھ کو شکایت ہو گی
ہاں مجھے تلخی حالات پر رونا آیا
#####
گورنر پنجاب نے کہا ہے: نئے صوبے اور خزانے کی چابی لاہور والوں سے حاصل کر لیں گے، نئے صوبے کی قراردادوں کو مذاق نہ سمجھا جائے پریکٹیکل آدمی ہوں۔
گورنر پنجاب محمود احمد نے یہ بات بہت اچھی کی کہ پریکٹیکل آدمی ہوں، یہ نہیں کہا کہ پریکٹیکل انسان ہوں۔ بات بھی ٹھیک ہے کیونکہ مرزا غالب تو پہلے ہی فتویٰ دے چکے ہیں #
بس کہ مشکل ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
گورنر صاحب نے جب سے حلف اٹھایا ہے ساتھ ہی یہ بھی قسم کھا لی ہے کہ ہر الزام لاہور کے کھاتے میں ڈال دو، انہوں نے تو یہاں تک فرما دیا ہے کہ اگر ملتان صوبہ بنا تو لاہور بہت امیر ہو جائے گا۔ یہ جملہ بول کر انہوں نے لاہوریوں کے دل ”جیت“ لئے۔ کیا گورنر پنجاب کا صوبہ لاہور ہے؟ وہ اتنے بڑے جغرافیہ دان ہوں گے یہ تو اب معلوم ہوا۔ وہ یہ بتائیں کہ خود امیر ہیں یا غریب، یہ نہ ہو کر کل کوئی یہ کہہ دے کہ امیر جب گورنر بن گیا تو وہ اب مزید امیر ہو جائے گا۔ لاہور والے سے مراد تو سارے لاہوری ہیں، اور لاہور کے ارد گرد اب کوئی فصیل بھی نہیں کہ چابی لینے کی ضرورت پیش آئے، وہ پنجاب کے گورنر ہیں یا جنوبی پنجاب کے، کم از کم اپنے صوبے کا تو خیال رکھیں اور جس لاہور نے انہیں گورنر ہاؤس رہنے کو دیا اس لاہور کو غریب بنانے کی بات تو نہ کریں، اگر کسی نے غلط سبق پڑھا بھی دیا ہے تو اپنی دانش بھی استعمال کریں، ان کا اپنے ہی صوبے کی گورنری کو رگیدنے پر اور کیا کہا جائے کہ ”برایں عقل و دانش بباید گریست“ (ایسی عقل مندی پر تو رونا چاہئے) وہ جو مشن لے کر آئے ہیں وہ جب سابق گورنر سے پورا نہ ہو سکا حالانکہ وہ نیلسن منڈیلا کے رشتہ دار بھی ہیں، پھر بھی گئے ” وان وٹیندے“۔
#####
ملائشیا میں فرمانبردار بیویوں کا کلب قائم ہو چکا ہے
یہ کلب بنیادی طور پر شوہروں کی حکمرانی اور نادر شاہی کو فکس اپ کرنے کیلئے بنایا گیا ہے۔ ویسے یہ بات تو صحیح ہے کہ شوہروں نے کچھ کام اپنے لئے اور کچھ بیویوں کیلئے مختص کر دیئے ہیں جبکہ ایک جوڑے کو زندگی کے سارے کام مل جل کر کرنے چاہئیں۔ یہ نہیں کہ شوہر آٹا ہرگز نہیں گوندھے گا، روٹی نہیں پکائے گا، باہر کے کام بھی دونوں کو کرنے چاہئیں، یہ نہیں کہ بیوی گھر سے باہر کوئی کام ہی نہیں کرے اور شوہر ایک کرسی پر آٹھ گھنٹے گزارنے کے بعد گھر میں وی وی آئی پی بن کر داخل ہو، اگر” میاں بلی“ دونوں ملازمت کریں، دونوں گھر کے کام بھی سنبھالیں تو حقوق نسواں اور مظالم مرداں کا ”رولا“ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ ہم ملائشیا میں فرمانبردار بیویوں کے کلب سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ایک ہی صف میں کھڑا کر دے مرد و زن، تاکہ کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہ رہے۔ مرد بسا اوقات اپنی مردانگی پر نازاں رہتے ہیں تو خواتین بھی اپنی زنانگی پر فخر کریں، جوڈو کراٹے سیکھیں تاکہ بوقت ضرورت نہ صرف کام آئے بلکہ مرد و زن کے درمیان مساوات کی سند بھی ثابت ہو۔ اس دنیا میں طاقت اور دولت کا فلسفہ رائج ہے، جو گھروں سے لے کر ایوان ہائے حکمرانی تک پھیلا ہوا ہے۔ جب فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا تھا تو عورت ان کی پسلی میں چھپی بیٹھی تھی، گویا یوں مرد و زن دونوں مسجود ملائک ٹھہرے، یوں تو ہم بات بات پر اقبال کو ”Coat“ کرتے ہیں اور ان کے اس فرمان کو صرف ایک مصرع کی حدتک پیش کر کے اپنا مطلب نکال لیتے ہیں جبکہ پورا شعر یوں ہے #

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اس کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
#####
چین میں طالب علموں کا نقل کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال۔
”نقل را عقل میباید“ (نقل کیلئے عقل کی ضرورت ہے) اس مقولے پر جو تکنیکی عمل چینی طلبہ نے کیا وہ لاجواب ہے، اور اب اگر یہ نئی ڈیوائس یہاں بھی آ گئی تو ہمارے امتحان لینے والوں کے پاس اس کا کیا جواب ہے۔ یہ ڈیوائس جو چین میں ایجاد ہوئی ہے، اسے لڑکے بیلٹ میں اور لڑکیاں اپنے بالوں میں لگا کر اچھے خاصے نمبر حاصل کر سکتی ہیں۔ چینیوں کا دماغ ایسا ہے کہ یہ دماغ بھی بنا سکتا ہے اور جلد ہی بازار میں چینی دماغ دستیاب ہونے کا امکان ہے۔ اگر غور کیا جائے تو نقل بھی ایک طرح سے حصول علم ہے کیونکہ جس کا پتہ نہیں ہوتا وہ معلوم ہو جاتا ہے، بہرحال نقل کرنا اچھی بات اور نقل لگانا بری بات ہے، اگر مزید غور سے دیکھا جائے تو ہم سب جو کہتے لکھتے ہیں وہ بھی نقل ہی ہوتا ہے، بس ہر ایک کا سانچہ جدا جدا ہے۔ چین نے دنیا پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے مگر اپنی ناک کھڑی نہیں کر سکتا، شاید وہ ایسا کرنا بھی نہیں چاہتا کہ یہ چپٹی ناک اس کا قومی نشان ہے۔ اب ہمارے کمرہ امتحان میں نگران حضرات و خواتین کو لڑکوں کی بیلٹ اور لڑکیوں کے بالوں پر نظر رکھنی پڑے گی لیکن ہمارے نقلچو بھی بلا کے نقال ہیں اس ڈیوائس کو کسی ایسی جگہ چھپا لیں گے کہ جہاں تک انسانی دسترس ممکن ہی نہ ہو۔ چین سے یہ نیا ”نقل فتنہ“ ممکن ہے اب تک ہماری مارکیٹوں میں پہنچ بھی گیا ہو، جو طلبہ کچھ بن کر دکھانے والے ہوتے ہیں نقل میسر آنے پر بھی اس سے استفادہ نہیں کرتے اور جنہوں نے کچھ نہ بننا ہو بلکہ دوسروں کو بنانا ہو وہ ضرور اس خبر کا تعاقب کریں گے اور کسی طرح یہ ڈیوائس حاصل کر کے رہیں گے۔ تاجر حضرات بھی پیچھے نہیں رہیں گے۔
#####
تازہ ترین