• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف …رخسانہ رخشی،لندن
پاکستانی قوم بھی دکھ ، روگ ، بیماری، آزار اپنے اندر پال کر جی رہی ہے۔ یوں جان لیں کہ مرض حاد کا شکار ہیں، جب اس ملک کے کرتا دھرتا گھروں کو مرض خانہ بنائیں گے تو مرض پھر لاحق تو ہوں گے ہی۔ یہ مرض کے طوطے بھی عوام ہی پالتی ہے اور انہیں پال کر وہ مرض کو مرض لادوا سے مرض حاد بنا دیتے ہیں۔ پھر توقع کرتے ہیں کہ کوئی عیادت کے لئے آئے اور میرا حال پریشاں دیکھے۔ پریشاں تو ہر نوعیت کے مرض والے ہوتے ہیں اگر کوئی نہیں ہے پریشان تو وہ بیماری لگانے والا نہیں ہے جسے جانے کیا فکرہوتی ہے اپنی مگر قوم کے امراض اسے نظر نہیں آتے پھر قوم ہے کہ شکوہ کناں کہ ضبط نہ اگر ہو تو بیماروں کو عیادت کو بھی یہ حکمران نہ آیا کریں ہم اپنی پریشانیوں کے ساتھ جی لیں گے۔ ملک کے ہر حصے میں پھیلی، ہر صوبے کے شہر میں نظر آتیں وہ شاہکار تصاویر تو آپ ضرور دیکھ رہے ہیں جہاں مریض مٹی میں لیٹ کر ڈرپ کی نالی ہاتھوں میں پیوست کئے اپنی تندرستی کی امید رکھتے ہیں۔ ایسے نظارے آپ کو سندھ میں زیادہ نظر آئیں گے کہ جہاں کچے فٹ پاتھ سے لے کر کچی مٹی سے بنے ہسپتال میں یا تو ڈرپ لگوا کر اپنے روگ سے چھٹکارا پالیتے ہیں یا پھر صحت کیلئے وہ ڈرپ اور اس میں موجود محلول ان کے لئے امرت دھارا بن کے دوڑتا ہے۔ بچے پیدا بھی انہیں مٹی کے کھلے سے ہسپتالوں کے میدان میں ہوتے ہیں کہ نوجوان نسل گر پڑ کر ہی مضبوط ہوگی اور حوادث کا سامنا کرنے کی سکت پیدا کرسکے گی۔ہمارے منفرد دور حکمرانی رہے ہیں پاکستان میں اور ہر حکمران دعویٰ کرتا ہے کہ آکر کہ کبھی وہ اس ملک کو پیرس بنائیں گے، کبھی یورپ جیسی ترقی دلاکر رہیں گے زیادہ تر پیرس بنانے کی بات ہوتی ہے۔ مگر کچھ نجات دہندگان نے تو آکر ایک انوکھا اسلامی دعویٰ کیا تھا کہ وہ اس پاک سرزمین کو ریاست مدینہ کی شکل دیں گے۔ ریاست مدینہ کی اہمیت ان کے نزدیک عام سی حالت ہے کہ جہاں بس انصاف ہی ہوتا تھا۔ ارے ریاست مدینہ تو اپنے اندر ایسی کشش رکھّے تھا کہ لوگ بھوکوں کی طرح وہاں رہنا چاہیں تھے ،بھلے پیٹ بھرا ہوتا یا فاقہ مگر ریاست مدینہ میں لوگوں کی بھوک پیاس سے زیادہ اس ہستی سے محبت کی پیاس نا بجھتی تھی کہ جس کے قول و فعل میں تضاد نہ تھا جس کا کردار شفاف آئینے کی طرح کہ صادق و امین لقب پانے والے نے وہاں کے رہنے والوں کو ایسا گرویدہ بنار رکھا تھا کہ انہیں بھوک پیاس کا لالچ نہ تھا اور کسی جسمانی مرض کا دھڑکا بھی نہ تھا کہ ان کا رہبر و رہنما اتنی مثبت زندگی کی داغ بیل ڈال گیا کہ جہاں سب ماحول مثبت ہی رہا۔ تاریخ گواہ ہے اور سائنس بھی کہ جہاں کا ماحول مثبت اور پاکیزہ ہو وہاں بیماریوں کا کیا کام! بیماریاں انسانوں کے روح و بدن کے اتار چڑھائو اور گرم و سرد مزاج اور پریشان حال رہنے سے برپا ہوتیش ہیں۔ کیا کسی حکمران نے آج تک عوام کو مثبت فضا دی ، کیا ذہنی سکون دیا، یا پھر ایسی سکون قلب کی طرح ڈالی کہ سب کے سب کمفرٹ زون میں رہیں اور بمیاریاں بھی جہاں جنم نہ لیں۔ سب اچھا اچھا کا ڈنکا تو اس سرزمین پہ کبھی بج کے نہ دیا تو پھر طرح طرح کے مرض بھھی جڑ پکڑیں گے، مرض بھی بگڑیں گے، عام مرض سے مرض حاد بھی بنیں گے، ملک مرض خانہ بھی بنے گا، پھر مرض لادوا ہوکر مرض الموت کی شکل بھی اختیار کرلے گا ظاہر ہے جہاں دوائیں نہ ہوں گی تو خدانخواستہ یہ صورتحال پیداہوسکتی ہے اور اس وقت ملک کی صورتحال یہہے کہ یہاں اور دوسری اشیاء اور ضروریات زندگی کے قحط کے علاوہ دوائوں کا کال بھی پڑ گیا۔ مستحق مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں سے جو دوائیں اور انسولین وغیرہ ملا کرتی تھیں وہ ندارد! کہیں مریض مرض کے ہاتھوں تنگ اور شگر کئی کئی ہائی فگر کو کراس کرتی انہیں مزید نحیف و نزار اور مغموم کررہی ہے۔ شکر، بلڈ پریشر اور دل کے امراض سے متعلق دوائیاں تو کبھی بند نہیں ہوتیں قبر جانے سے بچنے کیلئے کھائی جاتی ہیں اور مسیحا کہتے ہیں کہ کھانا کھائو یا نہ کھائو مگر یہ دوائیاں تو ضرور کھائو۔ ابھی حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں بینظیر بھٹو ہسپتال کا دورہ کیا، عمران خان تمام لوگوں سے ملے سبھی مریضوں سے حال احوال پوچھا کہ دوائیاں مل رہی ہیں علاج ٹھیک ہو رہا ہے؟ یوں بھی ہوا کہ بہت سے مریضوں کو مرض بھول گیا اپنا اور عمران خان کو دیکھتے ہی انہیں سستا گھر سکیم یاد آگئی اور عمران نے جواب دیا وہ بھی دیں گے مگر فی الحال ہسپتال میں سہولیات میسر ہیں؟ کسی نے کہا بچے برآمدے میں پڑے ہیں بیڈ چاہئے کسی نے کہا دیکھ بھال خاص نہیں، غرض عمران خان نے وہاں موجود افراد کے مسائل سن کر دور کرنے کی کوشش تو کی مگر اتنے بڑے ہسپتال میں چند ایک کی سنی گئی باقی جو ادھا سے زیادہ ملک بیمار ہے اس کا کیا ہوگا۔ریاست مدینہ کے حکمراں کو اندازہ ہونا چاہئے کہ ان کی نگری میں دوائیں دستیاب نہیں حالانکہ یہ مثال اس نگری کی دیتے ہیں جہاں یہ رہے ہیں یعنی انگلینڈ میں جہاں ایک سے ایک معاملے میں عوام سکون و سہولت کی زندگی گذارتے ہیں، جہاں کا نظام تعلیم ایک جیسا ہے، جہاں ریاست جان و مال کی ذمہ دار ہے، جہاں تمام بیماروں، ناداروں ، بے سہارا لوگوں کے نگہبان حکومتی ادارے ہیں، جہاں میڈیکل کی سہولت ہر انسان کو آسانی سے میسر ہے، آپ اپنے علاقے کی سرجری میں رجسٹر ہوں وہاں آپ کا کارڈ بنتا ہے آپ پھر جب چاہیں اپنے ڈاکٹر کو دیکھ سکتے ہیں۔ کسی بھی چھوٹے بڑے مرض کیلئے آپ کو دوائیں بھی آپ کے قریبی میڈیکل سٹور سے مفت ملتی ہیں اور اور مریض کسی مستقل مرض میں مبتلا ہیں جیسے شوگر کے مریض، بلڈپریشر اور دل کے مریض انہیں دوا مستقل کھانا ہوتی ہے تو ان کیلئے ایسی سہولت ہے کہ ڈاکٹر کی طرف سے ان کے قریبی میڈیکل سٹور میں دوائوں کا نسخہ پہنچا دیا جاتا ہے مریض وہاں سے اپنی دوائیں لے لیتے ہیں کوئی بھی رشتے دار نام اور پتہ بتاکر دوائیں حاصل کرکے گھر لاتے ہیں۔ ایسا نظام پاکستان میں ہو تو لوگ جلد صحت یاب ہوکر سکون کی زندگی گزاریں پھر کوئی مرض لادوانہ ہو۔
تازہ ترین