
جاسکتا ہے۔ ادب اور شاعری کے حوالے سے معروف نام محترمہ شرلی انجم جو خود بہت حلیمی اور متانت سے گفتگو کرتی ہیں وہ بھی شنیلا روتھ صاحبہ سے سخت ناراض ہیں اور فرماتی ہیں کہ ان کو اپنے اس بیان پر معذرت کرنا چاہئے میری ذاتی طور پرمحترمہ شنیلا سے بات ہوئی تھی۔ فون پر محترمہ شنیلا نے وعدہ کیا کہ اگر میرے بیان سے قوم کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں اس کی وضاحت کروں گی۔ کیونکہ میرا مقصد یہ نہیں تھا۔ محترمہ نے کہا تھا کہ وہ ایک ویڈیو کلپ کے ذریعے اپنی وضاحت پیش کریں گی۔ مگر دوسرے دن انہوں نے اپنی ویڈیو میں اپنے بیان کو اپنے خلاف پرو پیگنڈا قراردے دیا۔ فون پر محترمہ نے ایک اور بات کی تھی جس پر میں نے اختلاف کیا تھا وہ یہ تھی کہ آسیہ بی بی کی رہائی کے پیچھے عمران خان کا ہاتھ تھا۔ میں نے کہا تھا کہ پہلی بات یہ کہ چونکہ آسیہ بی بی بے قصور تھی، دوسری بات ہماری سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ اوورسیز پاکستانی کرسچن الائنس نے اپنی سکائیپ میٹنگ میں اس بیان کو جھوٹا اور لغو قرار دیا اور اس کی سخت الفاظ میں مذمت بھی کی چیئرمین اعجازمیتھیوذوالفقار اور سنیئر وائس چیئرمین اور سابق ایم پی اے سندھ اسٹیفن پیٹر نے حکومت پاکستان پر زور دیا کہ وہ مسیحیوں کو ان کے نمائندے منتخب کرنے کیلئے ووٹ کا حق دیں تاکہ وہ اپنی مرضی کے نمائندے منتخب کریں۔ شنیلا روتھ سمیت جتنے بھی اقلیتی نمائندے ہیں ان کو اپنی کمیونٹی کیلئے کام کرنا چاہئےصائمہ مسیح اور سلمیٰ مسیح کے خلاف ایف آئی آر کٹ چکی ہے۔ گو کہ چک جھمرہ کے ایس ایچ او کے خلاف ان بچیوں کو حبس بےجا میں رکھنے کے خلاف کاروائی شروع ہو چکی ہے مگر یہ سب نظروں کا دھوکہ ہے۔ جس وقت یہ تحریر لکھ رہا ہوں میرے پاس ایک اور خبر حبس بے جا کے حوالے سے موجود ہےکہ تحصیل چیچہ وطنی کے رہائشی پرویز مسیح اور اس کی بیوی زمیندار محمد شہباز کی زمین پرکام کرتے تھے۔ محمد شہباز کی نظر اس کی بیوی پر تھی۔ پرویز مسیح نے کرسمس کے لئے چھٹی اور تنخواہ کا مطالبہ کیا جس سے جھگڑہ ہوا تو زمیندار محمد شہباز نے پرویز مسیح پر 25 لاکھ کے جانور کی چوری کا الزام لگا کر اسے تھانہ ہڑپہ میں بند کروا دیا۔ آج پرویز مسیح کو تھانے میں بغیر ایف آئی آر کے اور تشدد برداشت کرتے ہوئے 20دن گزر گئے ہیں مگر کوئی اس کی فریاد سننے والا نہیں ہے۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ پرویز مسیح تشدد کے سبب جسمانی طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔ اہل محلہ گواہی دینے کو تیار ہیں کہ پرویز مسیح ایک پیسہ چوری نہیں کر سکتا۔ مگر پاکستان میں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ اس طرح کی خبریں آتی رہتی ہیں مگر ہمارے نمائندے اپنے لیڈرز کی چمچہ گیری میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن چکے ہیں۔ کوئی اپنی کمیونٹی کے لئےآواز بلند نہیں کرتا۔ کوئی نہیں بتاتا کہ آسیہ بی بی کہاں ہے۔ کیا یہ آزادی ہے کہ وہ کئی پہروں میں قید ہے اور پہرے دار بھی مسیحی پولیس اہلکار ہیں۔ نو سال جیل میں بے قصور گزار دیئے اب بھی ایک طرح کی قید ہی ہے۔ کیا آسیہ بی بی پاکستان میں آزادی سے گھوم سکتی ہے؟۔کیا اپنے بچوں کے ساتھ کسی پارک میں، شادی میں یا کسی تقریب میں آزادی کے ساتھ شرکت کر پائے گی اس کا جواب ہم سب جانتے ہیں مگر دیتے نہیں ہیں کیونکہ اس کا جواب بہت تلخ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کی حکومت نے انتہا پسندوں کے خلاف جو قدم اٹھایا ہے وہ یقینی طور پر قابل تحسین ہے۔ کیونکہ اس سے قبل کوئی بھی حکومت یہ ہمت نہیں کر سکی۔ مگر اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے طویل مدتی (لانگ ٹرم) پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی ترقی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب قوم میں رنگ،نسل، مذہب کی تفریق ختم ہو گی۔ ایکتا ہوگی، یکجہتی ہوگی۔