• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل ایک بار پھر مجموعی طور پر دریائے سندھ پر ڈیم تعمیر کرنے اور خاص طور پر کالاباغ ڈیم تعمیر کرنے کا بڑا چرچا ہورہاہے اس بار یہ شور اس وقت اٹھاہے جب لاہور ہائی کورٹ نے مختلف پٹیشنوں کی سماعت کے دوران 29 نومبر کو اچانک ایک شارٹ آرڈر جاری کرکے وفاقی حکومت کو ہدایات جاری کیں کہ مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) کے فیصلوں پر عملدرآمد کیاجائے۔
یہ شارٹ آرڈر کچھ ایسی پٹیشنوں کی سماعت کے بعد جاری کیا گیا جن کے ذریعے استدعا کی گئی تھی کہ حکومت کو ہدایات جاری کی جائیں کہ سی سی آئی کی سفارشوں کی روشنی میں یہ ڈیم تعمیر کیا جائے۔ سماعت کے دوران بین الصوبائی رابطے کی وفاقی وزارت کے سینئر جوائنٹ سیکرٹری شہزاد اقبال نے عدالت کو بتایا کہ سی سی آئی اس پروجیکٹ کے بارے میں فیصلے کرچکی ہے انہوں نے بتایا کہ سی سی آئی نے اس سلسلے میں پہلا فیصلہ1991ء میں ہونے والے سی سی آئی کے اجلاس میں کیا جس میں کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کافیصلہ کیاگیا اس کے بعد اس نے بتایا کہ 9 مئی 1998ء میں دوبارہ اس ایشو پر غور کیا اور نیچرل واٹرز ریسورسز ڈیولپمنٹ پروگرام جس کے سربراہ پانی اور بجلی کے وفاقی وزیرتھے کو ہدایات دیں کہ ایک ڈاکیومینٹ تیار کی جائے تاکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر میں ملوث ایشو کی وضاحت کی جائے اور اس پروجیکٹ کے بارے میں فنی اور سیاسی نوعیت کے معاملات کاجواب دیاجائے۔ یہ بھی بتایاگیا کہ سی سی آئی کے یہ اجلاس پرائم منسٹر ہاؤس میں منعقد ہوئے تھے اور ان اجلاسوں میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی تھی۔چونکہ آئین کے تحت سی سی آئی کے سربراہ ملک کے وزیراعظم ہوتے ہیں اور1991ء یا 1998ء میں پاکستان کے وزیراعظم پی ایم ایل (ن) کے سربراہ میاں محمد نوازشریف تھے لہٰذا اس میں دورائے نہیں ہوسکتیں کہ سی سی آئی کے ان دونوں اجلاسوں کی صدارت ان دونوں مرحلوں پر ملک کے وزیراعظم میاں نوازشریف نے کی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اخباری خبروں کے مطابق شارٹ آرڈر بین الصوبائی رابطے کی وفاقی وزارت کے سینئر جوائنٹ سیکرٹری کے بیان پر جاری کیا گیا ان خبروں میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ سینئر جوائنٹ سیکرٹری نے اس سلسلے میں سی سی آئی کے ان اجلاسوں کے منٹس بھی عدالت میں پیش کئے تھے یا نہیں‘ اگر عدالت کا یہ فیصلہ سی سی آئی کے ان اجلاسوں کے منٹس کابغور جائزہ لئے بغیر محض ایک بیان کی بنیاد پر دیاگیاہے تو یہ بات بھی تو قابل غور نہیں اس سلسلے میں آئین اور قانون کے ماہرین ہی کوئی حتمی رائے دے سکتے ہیں مگر ایک عام رائے یہ ہے کہ عدلیہ کالاباغ ڈیم جیسے حساس اور متنازع ایشو پر ڈاکیومنٹری شہادت کے بغیر محض بیانات کی بنا پر ایسے اہم فیصلے صادر کرسکتی ہے یانہیں۔ سندھ کے آئینی اور قانونی ماہرین کاخیال ہے کہ عدالتوں کو ایسے حساس اور متنازع ایشوز جو فنی کے ساتھ سیاسی تنازعے میں تبدیل ہوچکے ہیں، میں خود کو ملوث کرنا چاہئے یانہیں؟ اور وہ بھی اگر ڈاکیومنٹری شہادت کی بجائے محض اگر بیانات کی بنا پر ہے ایسے فیصلے صادر کرناکہاں تک انصاف کے تقاضوں کی مطابق ہے کہ یہ سوال آج کل نہ صرف سندھ کے قانونی حلقوں میں بلکہ سندھ میں وسیع پیمانے پر پوچھا جارہاہے ان عناصر کا خیال ہے کہ اگر وفاقی وزارت کے سینئر جوائنٹ سیکرٹری نے اپنے موقف کی حمایت میں کوئی ڈاکیومنٹری ثبوت پیش نہیں کیا جو ان اجلاسوں کے منٹس بھی ہو سکتے ہیں تو کیا قابل احترام عدالت محض بیانوں پر انحصار کرکے چاہتی تھی تو پی ایم ایل (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف جن کا تعلق پنجاب سے ہے اور1991ء اور 1998ء میں ملک کے وزیراعظم ہونے کے ناتے ان دونوں اجلاسوں کی صدارت بھی کی تھی صورتحال کو انتہائی درست زوائیے سے دیکھنے کیلئے عدالت کی طرف سے کیوں انہیں نہیں بلایا گیا تاکہ وہ اپنے بیان سے سارے حقائق سامنے لاتے اور اس طرح ساری صورتحال واضح ہو جاتی۔ اس کے علاوہ 1991ء اور 1998ء میں ہونے والے سی سی آئی کے اجلاسوں میں پنجاب کے وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی تھی اور غالباً 1998ء میں پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف تھے تو انہیں کیوں عدالت میں نہیں بلایا گیا تاکہ وہ بھی سارے حقائق عدالت کے سامنے پیش کرتے علاوہ ازیں سندھ کے آئینی اور قانونی ماہرین کاخیال ہے کہ اگر پنجاب کی عدالت عالیہ سے یہ بھی توقع کی جارہی تھی کہ اس ایشو پر درست رائے قائم کرنے کیلئے لاہور کی ہائی کورٹ وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرنے کے ساتھ پاکستان کے چاروں صوبوں کی حکومتوں کوبھی نوٹس جاری کئے جاتے تو کیابہتر نہ ہوتا۔مگر یہ سب کچھ نہیں کیاگیا اور فقط وفاقی حکومت کونوٹس جاری کئے جانے تک ہی اکتفا کیاگیا۔ جہاں تک1991ء اور 1998ء کے سی سی آئی کے اجلاسوں کے منٹس کا تعلق ہے تو ان دونوں اجلاس کے منٹس ہمارے پاس دستیاب ہیں ہائی کورٹ کی طرف سے جاری کئے گئے اس شارٹ آرڈر کے بطور ہماری اطلاعات کے بعد سندھ حکومت نے بین الصوبائی رابطے کی وفاقی وزارت سے رابطہ کرکے ان سے 1998ء میں ہونے والے اجلاس کے منٹس طلب کئے ان منٹس کی کاپی سندھ حکومت کو فراہم کی گئی ہے اس کی ایک کاپی ہم نے بھی کسی طرح حاصل کی جو ہمارے پاس دستیاب ہے۔ ان منٹس کاجائزہ لینے کے بعد یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہ منٹس مکمل نہیں ہیں اوران میں ہیراپھیری کی گئی ہے ہمارے پاس ایسی کئی دستاویزات ہیں جن سے پتہ چلتاہے کہ ماضی میں کئی بار اسلام آباد میں ہونے والے ایسے اجلاسوں کے منٹس Mutilated کرنے کے بعد صوبوں میں مشتہر کئے گئے جن پر سندھ کی حکومتوں نے متعدد بار اعتراضات کئے ایسی کچھ دستاویزات ہمارے پاس دستیاب ہیں جو وقت آنے پر جنگ کے قارئین کیلئے شائع کی جاسکتی ہیں۔ بہرحال خود لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے جاری کئے گئے شارٹ آرڈر یا وفاقی وزارت کے سینئر ڈپٹی سیکرٹری کے بیان سے ابھی بھی ظاہر ہوتاہے کہ 1998ء کے اجلاس میں کالاباغ ڈیم بنانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیاگیا البتہ اس سلسلے میں فنی اور سیاسی اعتراضات کو مطمئن کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں لہٰذا1998ء کے سی سی آئی کے اجلاس کے بارے میں خود عدالت میں پیش کی گئیں تفصیلات سے بھی یہ کہیں ظاہر نہیں ہوتا کہ 1998ء میں سی سی آئی نے کالاباغ ڈیم بنانے کی منظوری دی اور نہ اس فیصلے میں وفاقی حکومت کو کوئی ہدایات دیں لہٰذا اگر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے کوئی ایسا تاثر دیاگیاہے تو اسے درست کیسے تسلیم کیاجائے۔ ایک بات اور بھی یہاں پر مختصراً ریکارڈ پرلائی جاسکتی ہے کہ 1998ء کے سی سی آئی کے منٹس جس کی کاپی متعلقہ وزارت نے سندھ کو اس وقت فراہم کی ہے اور اس کی کاپی ہمارے پاس بھی دستیاب ہے کاجائزہ لینے سے صاف پتہ چلتاہے کہ یہ منٹس Mutilated ہیں کیونکہ ان منٹس میں مختلف مقامات پر تسلیم کیا گیاہے کہ اس پروجیکٹ کے مختلف aspects پرصوبوں ( یعنی خاص طور پر سندھ اور خیبرپختونخوا )کی طرف سے اعتراضات کئے گئے مگر ان منٹس میں کہیں بھی ان اعتراضات کی وضاحت نہیں کی گئی کیوں؟ کیا منٹس اس طرح بنائے جاتے ہیں؟جہاں تک 1991ء میں سی سی آئی کے ہونے والے اجلاس کا تعلق ہے تو اس اجلاس کے منٹس ہمارے پاس دستیاب ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ 16 مارچ 1991ء کو چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے پانی کے معاہدے پر اتفاق رائے سے دستخط کئے یہاں مختصراً یہ بات بھی ریکارڈ پر لانابہت ضروری ہے کہ سندھ کے پانی کے ماہرین اور سیاسی حلقوں کو اس معاہدے پر کافی شدید اعتراضات تھے اور ہیں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سندھ کی وجہ سے جس جام صادق علی حکومت نے اس معاہدے کیلئے مذاکرات کئے اور جام صادق نے سندھ کی طرف سے اس معاہدے پر دستخط کئے وہ اور اس کی حکومت سندھ کی اصل نمائندہ نہ تھی کیونکہ 1990ء کے انتخابات میں سندھ میں پی پی واحد اکثریتی پارٹی کے طور پر منتخب ہوئی تھی مگرچونکہ جام صادق انتخابات کے وقت نگراں وزیراعلیٰ تھے لہٰذا انہوں نے انتخابات کے بعد پی پی کے کئی ایم پی ایز کو گرفتار کیا اور پھر زور زبردستی ہارس ٹریڈنگ کرکے اپنی حکومت قائم کی حالانکہ جام صادق اکیلے آزاد امیدوار کے طور پر منتخب ہوئے تھے بعد میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کی جوڑتوڑ کے نتیجے میں وہ اکثریت بنانے کے بعد سندھ کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ اب تو 1990ء کے انتخابات کے بارے میں ایئرمارشل اصغرخان کی پٹیشن پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دودھ کادودھ اور پانی کاپانی ہوگیاہے۔(جاری ہے)
اگر قارئین اس موضوع پر اظہار خیال کرنا چاہیں تو جنگ کے صفحات حاضر ہیں۔(ادارہ)
تازہ ترین