• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ثاقب نثار اپنے پیچھے متنازع ورثہ چھوڑ گئے، قانونی ماہرین

اسلام آباد ( رپورٹ/ وسیم عباسی ) عوامی مفاد میں کچھ فیصلوں کے باعث گو کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان مسیحا تصور کئے جاتے ہیں لیکن انہیں اپنے زیادہ تر متنازع فیصلوں اور ریمارکس کے باعث یاد رکھا جائے گا، جن سے کئی ایک کے کیریئر تباہ ہو گئے۔ تاہم سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اظہر صدیقی نے سابق چیف جسٹس کو تعریف کا مستحق اور ان کے دور میں ملکی عدلیہ کی تاریخ کا سنہری دور قرار دیا اور بتایا کہ انہوں نے اپنے دور میں انسانی حقوق سے متعلق ایک لاکھ بیس ہزار مقدمات حل کئے۔ آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق سابق چیف جسٹس نے ملا جلا ورثہ چھوڑا ہے ۔ انہوں نے کچھ مقبول فیصلے کئے وہیں انتظامی امور میں مداخلت کرکے خطرناک نظیر قائم کی ۔ جسٹس ( ر) ثاقب نثار کی جارحانہ ’’ جوڈیشیل ایکٹوازم ‘‘ کا نشانہ بننے والوں میں سیاست دان، سرکاری حکام، کاروباری شخصیات، سائنسدان، ڈاکٹرز اور حتیٰ کہ صحافی تک شامل ہیں۔ قانونی ماہرین کی رائے میں گرینڈ حیات کیس میں ان کا فیصلہ اور ریمارکس انتہائی متنازع رہے۔ سابق ایس ایس پی رائو انوار کے خلاف مقدمے میں انہوں نے نرمی برتی، مقبول عام فیصلوں میں نجی اسکولوں کی فیسوں اور عارضہ قلب کے حوالے سے اسٹینٹس کی قیمتوں میں کمی اور طب کی تعلیم میں اصلاحات شامل ہیں۔ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ان کے زیادہ مقبول عام فیصلے انتہائی متنازع بھی رہے کیونکہ فیصلے دینے میں انہوں نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔ ان کے متنازع فیصلوں میں نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ بھی شامل ہے ، سابق چیف جسٹس اکثر جذبات سے مغلوب بھی ہوئے جس کے نتیجےمیں انہوں نے اپنی قانونی حدود سے تجاوز بھی کیا۔ کامران مرتضیٰ کے مطابق سابق چیف جسٹس کے متنازع فیصلوں اور ریمارکس میں گرینڈ حیات ہوٹل کیس ، بحریہ کیس میں سودے بازی کی کوشش اور پی کے ایل آئی کیس وغیرہ شامل ہیں۔ پی کے ایل آئی کے بانی پروفیسر ڈاکٹر سعید اختر جو بین الاقوامی شہرت یافتہ یورو لوجسٹ ہیں، عدالت عظمیٰ نے گزشتہ سال انہیں برطرف کرکے نام ای سی ایل میں ڈال دیا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت میں سودے بازی ایک عجیب و غریب طرز عمل تھا، تاہم کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ریٹائر ہو چکے اور احترام کے مستحق ہیں، معروف قانون دان عابد حسن منٹو نے کہا جب ایک جج یہ سمجھنا شروع کر دے کہ وہ ملک کے تمام مسائل حل کر سکتا ہے تو وہ ہر چھوٹی بڑی بات کا نوٹس لینا شروع کر دیتا ہے اور اسی سے اختیارات کے غلط استعمال کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔
تازہ ترین