• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے گہرے سمندر میں کیکڑا۔1کنویں کی ڈرلنگ

اسلام آباد(خالد مصطفیٰ)پاکستان کے گہرے سمندر میں کیکڑا۔1کنویں کی ڈرلنگ،کامیابی ملنے پر تیل اور گیس فیلڈ کے قیام پر 30کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کاری ہوگی۔تفصیلات کے مطابق،اطالوی کمپنی ای این آئی کی سربراہی میں تیل اور گیس کی تلاش کرنے والی چار کمپنیوں کا مشترکہ وینچر جو کہ پاکستان کےگہرے سمندری حصے انڈس جی بلاک میں کیکڑا۔1کنواں بنائیں گے ۔اگر اس میں کامیابی ملتی ہے تو وہ 30کروڑ ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری سے تیل اور گیس فیلڈ بنانے کی منصوبہ بندی کریں گے۔ڈائریکٹر جنرل پٹرولیم رعایت(ڈی جی، پی سی)قاضی سلیم نے دی نیوز کو بتایا کہ مشترکہ وینچر ڈرلنگ کی سرگرمیاں ساڑھے سات کروڑڈالرز سے آٹھ کروڑ ڈالرز سے شروع کرے گی جس میں ہر ایک کا 25فیصد حصہ ہوگا۔کیکڑا۔1کنویں کی آپریٹر اطالوی کمپنی ای این آئی ہے۔تاہم ایگزون موبل، او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل اس مشترکہ وینچر کی خاموش شراکت دار ہیں۔انڈس جی بلاک پہلے 12اگست،2006کو او جی ڈی سی ایل کو دیا گیا تھا لیکن بعد ازاں اسے 25اپریل،2007کو پٹرولیم شیئرنگ معاہدے کے تحت ای این آئی کو دے دیا گیا۔اب ای این آئی نے آپریٹر کی حیثیت سے پاکستان کے گہرے سمندر میں گیس اور تیل کی تلاش شروع کردی ہے۔اگر کوئی بڑی دریافت ہوتی ہے تو تیل اور گیس کی دریافت میں حکومت پاکستان کا حصہ 70فیصد تک پہنچ سکتا ہے ، تاہم اس کا انحصار معاہدے میں موجود سلیبس پر ہوگا۔پاکستان میں فی الوقت 57ٹریلین کیوبک فٹ(ٹی سی ایف)قابل بازیاب گیس ذخائر ہیں ، جس میں سے 38کھرب کیوبک فٹ مل چکے ہیں اور 19اعشاریہ5کھرب کیوبک فٹ ابھی تلاش کرنا باقی ہیں۔جب کہ تیل کے قابل بازیاب ذخائر 1اعشاریہ246ارب بیرلز ہیں ، تاہم اب تک صرف اعشاریہ899ارب بیرلز ہی تلاش کیے جاسکے ہیں۔ایگزون موبل کے سی ای او ارتضیٰ سید نے 16جنوری، 2019کو وفاقی وزیر پٹرولیم اور قدرتی وسائل غلام سرور خان کو انڈس جی بلاک سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ای این آئی کی قیادت میں مشترکہ وینچر نے اپنا کام شروع کردیا ہےاور وہ مارچ یا اپریل میں پہلی خوش خبری سنائے گی۔ایگزون موبل نے 5500فٹ گہرائی کو اپنا ہدف بنایا ہے۔مارچ میں ایگزون موبل ان کے نمونے جانچ پڑتال کے لیے ہیوسٹن بھجوائے گی ۔اسی طرح ای این آئی بھی مارچ میں نمونے میلان بھجوائے گی۔اپریل سے مئی تک اس ضمن میں معقول اندازہ ہوجائے گا کہ اس کنویں میں تیل اور گیس ہے۔گیس کے ذخیرے کو سوئی کے مقام سے دریافت ہونے والے گیس کے ذخیرے کے برابر تصور کیا جارہا ہے، جس کے اندازاًذخائر 3سے8ٹریلین کیوبک فٹ یا 25سے40فیصد پاکستان کے کل گیس ذخائر کے برابر ہے۔تاہم، ڈی جی ، پی سی سلیم کا کہنا تھا کہ ساڑھے سات کروڑ ڈالرز سے آٹھ کروڑ ڈالرز کی ابتدائی سرمایہ کاری جو کہ ڈرلنگ کے لیے کی جارہی ہے یہ تیل اور گیس کی تلاش کے حوالے سے دنیا بھر میں معمول ہے کیوں کہ کنواں اگر خشک ہو تو سرمایہ کاری ڈوب سکتی ہے۔اس کاروبار میں ہمیشہ خدشات ہوتے ہیں اس لیے ڈرلنگ پر کی جانے والی سرمایہ کاری کو ڈوبتی سرمایہ کاری کا نام دیا جاتا ہے۔اگر ڈرلنگ کے مثبت نتائج آتے ہیں تو کیکڑا۔1تیل اور گیس فیلڈ کے لیے تقریباً30کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ای این آئی نے کراچی بندرگاہ سے 230کلومیٹرز جنوب مغرب میں کیکڑا۔1کنویں کی ڈرلنگ کا کام شروع کردیا ہے۔ڈی جی ، پی سی نے اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ ماضی میں بھی پاکستان کے گہرے سمندر میں 17کنوئوں کی ڈرلنگ کی گئی تھی ، لیکن وہ تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔اس کے پس منظر سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ پہلے آف شور کنویں کی ڈرلنگ 1963میں امریکی کمپنی سن آئل نے کی تھی ، تاہم وہاں کنوں خشک ملا تھا۔اسی کمپنی نے 1964میں پاکستان میں دو کنوئوں کی کھدائی کا کام کیا لیکن وہ بھی خشک تھے۔اس کے آٹھ سال بعد جرمنی کی ونٹر شیل کمپنی نے گہرے سمندر میں تین کنویں دریافت کیے ، جسے بعد ازاں موخر کردیا گیا کیوں کہ تینوں کنوئوں میں سے کچھ بھی نہیں ملا تھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ونٹر شیل نے 1972میں دو کنویں کھودے جب کہ 1975میں ایک کنویں کی کھدائی کی۔بدقسمتی سے ان میں کوئی تیل یا گیس دریافت نہیں ہوئی۔

تازہ ترین