• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دن دھاڑے پولیس موبائل میں آکر قتل کرنے کا معاملہ، ایف آئی اے انسپکٹر کیخلاف بھی تحقیقات

کراچی (اسد ابن حسن) دن دھاڑے پولیس موبائل میں آکر قتل کرنے کے معاملے میں ایف آئی اے انسپکٹر کیخلاف بھی تحقیقات جاری ہیں جس کی تصدیق ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بھی کردی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ دنوں کراچی میں پولیس موبائل اور اہلکاروں کے ہمراہ ایک شخص کو دن دھاڑے قتل کرنے والے ملزم نے پولیس تحویل میں یہ بیان دیا ہے کہ (اس کی وڈیو بھی وائرل ہوگئی) وہ نہ صرف مذکورہ شخص کو قتل کرنا چاہتا تھا بلکہ ایف آئی اے کے انسپکٹر شہباز کو بھی قتل کرنا چاہتا تھا۔ ملزم سہیل کا کہنا ہے کہ 3برس قبل اس کی اہلیہ اور تین بچے غائب ہوگئے تھے اور اس کو معلوم ہوا تھا کہ مقتول منور جوکہ ایک سیاسی پارٹی کا سیکٹر انچارج تھا، اس نے ورغلا کر اُنہیں نامعلوم مقام پر رکھا ہوا ہے جس کے بعد اس نے مقدمہ درج کروایا مگر بعد میں پولیس کی ملی بھگت سے مقدمہ بی کلاس کردیا اور عدالت نے کارروائی خارج کردی۔ گزشتہ اتوار کو عدالتی حکم پر درخشاں پولیس ملزم سہیل کے ہمراہ مقتول کی رہائش گاہ بہادرآباد پہنچی تاکہ گھر کی تلاشی لے کر مغویوں کو بازیاب کروایا جاسکے مگر ملزم سہیل نے مقتول منور کو گھر کے باہر فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ ملزم نے وڈیو بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ دو ڈھائی کروڑ روپے کے ہیرپھیر کا معاملہ تھا جس میں مقتول منور کے ساتھ ایف آئی اے انسپکٹر شہباز بھی شامل تھا اس نے پہلے بھی کئی مرتبہ انسپکٹر شہباز کو قتل کرنے کی کوشش کی جس کے لیے کئی دفعہ وہ گھٹنوں اس کے آفس کے باہر موجود رہا مگر اس کو کامیابی نہیں ہوئی پھر اس نے ایس ایس پی کلفٹن کے دفتر میں جب ان دونوں کو طلب کیا گیا تھا وہاں بھی پستول لے کر پہنچا مگر وہ دفتر نہیں آئے اور آخر میں اس کو صرف منور کو مارنے میں کامیابی ہوئی۔ اس حوالے سے انسپکٹر سیّد لشکر خان شہباز نے ’’جنگ‘‘ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مقتول منور سے نہ کوئی تعلق تھا اور نہ شناسائی۔ شہباز نے مزید کہا کہ 2016ء میں ملزم سہیل کی اہلیہ نے ایف آئی اے کو درخواست دی کہ وہ لاہور گئی ہوئی تھی جب واپس آئی تو ڈی ایچ اے میں اس کے فلیٹ پر تالہ توڑ کر قبضہ کرلیا گیا۔ مذکورہ انکوائری اس کو تفویض کی گئی۔ تحقیقات میں یہ ثابت ہوگیا کہ فلیٹ خاتون نے خود فروخت کیا تھا اور اس نے سہیل سے خلع کے بعد ایسا کیا تھا۔ خاتون نے یہ الزام بھی لگایا کہ اس کا شوہر اس کے بینک اکاؤنٹ کو آپریٹ کرنے اور بینک لاکر کو بھی نہیں کھولنے دے رہا جس پر سہیل کو بلوا کر بینک لے جایا گیا اور لاکر بھی کھلوایا گیا اور اکاؤنٹ آپریٹ کرنے کی بھی اجازت دلوائی گئی۔ اکاؤنٹ کی تفصیلات سے معلوم ہوا کہ فلیٹ کے فروخت کی رقم خاتون کے اکاؤنٹ میں جمع ہوئی جس پر اکاؤنٹ اور لاکر کو منجمد کردیا گیا۔ شہباز کا مزید کہنا تھا کہ سہیل ذہنی مریض ہے اور اسی وجہ سے اس کی بیوی نے خلع لیا۔ ملزم سہیل نے منور اور میرے خلاف 2017ء میں مقدمہ درج کروایا جس کی سمعاتوں پر میں عدالت میں پیش ہوتا رہا اور رواں برس پولیس نے مقدمہ بی کلاس کردیا جس کے بعد عدالت نے کارروائی ختم کردی۔ اس حوالے سے درخشاں پولیس کے ڈی ایس پی مختار خاصخیلی نے ان کے گھر کی تلاشی بھی لی۔ ملزم ایف آئی اے سندھ کے مختلف ڈائریکٹروں سے بھی ملتا رہا ہے۔ شہباز نے اقرار کیا کہ ان کے خلاف محکمہ جاتی انکوائری جاری ہے اور دو یوم قبل اُنہوں نے انکوائری آفیسر ایڈیشنل ڈائریکٹر سی بی سی فیض اللہ کوریجو کو ایک بیان بھی قلمبند کروایا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انسپکٹر شہباز نے اس بات سے انکار کیا کہ وہ دہری شہریت رکھتے ہیں اور یہ کہ ان کے بیٹے امریکی شہری ہیں۔ اس حوالے سے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سندھ زون منیر شیخ نے اس بات کی تصدیق کی کہ حقائق جاننے کے لیے اس حوالے سے انکوائری جاری ہے۔
تازہ ترین