• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں بھی بالآخر امریکہ کے پیٹریاٹ طرز کا بل قومی اسمبلی سے 20 دسمبر 2012ء کو پاس ہوگیا جس کی رو سے پاکستان کی ریاستی ایجنسیوں کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے یعنی ٹیلی فون اور موبائل و انٹرنیٹ کو ٹیپ کرکے شواہد اکٹھے کر سکتی ہیں اور وہ شواہد عدالت میں قابل قبول ہوں گے۔ اگرچہ یہ بل ابھی سینیٹ سے پاس ہونا ہے اور اس میں 32 ترمیمات کی گئی ہیں تاہم قانون ساز اسمبلی کے ارکان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بل وقت کی ضرورت ہے، جس کے پاس ہونے میں دیر ہوگئی ہے اور جس کی عدم موجودگی سے بڑے بڑے دہشت گرد چھوٹ گئے ہیں۔ اس لئے کہ مروجہ قوانین کے تحت ایس ایم ایس، ٹیلی فونک گفتگو یا انٹرنیٹ سے حاصل کردہ شواہد کو عدالت میں قبول نہیں کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے سوائے ایک کیس میں پھانسی ہوئی اور وہ بھی اُس کیس میں جس میں بری فوج کے کئی افراد کو شہید کیا گیا تھا اور شاید اس وجہ سے ہو سکی کہ فوجیوں نے شہادت دی اور یہ کہ عدالتوں کو کافی شواہد فراہم کئے گئے ورنہ تو بہت سارے دہشت گرد صاف بری ہوگئے جس نے پاکستان میں انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کو انتہائی مخصمے کا شکار کر رکھا تھا اور وہ شاکی تھے کہ ہم جانتے ہیں کہ کئی قاری، حاجی اور مولوی حضرات صرف اس لئے چھوٹ گئے کہ اُن کے خوف سے کوئی اُن کے خلاف گواہی دینے کو تیار نہیں تھا اور یہ دباؤ شدت اختیار کرتا جارہا تھا کہ جب کسی کو سزا نہیں ملے گی تو دوسرے کیسے عبرت پکڑیں گے۔ اگر ایک شخص قتل درقتل کرتا ہے مگر پھر وہ عدم ثبوت کی بنا پر چھوٹ جاتا ہے تو اس کی ہمت افزائی ہوتی ہے۔ ایسے کیس موجود ہیں کہ ایک شخص نے سو سے زیادہ افراد کے قتل کا اعتراف کیا مگر پھر وہ رہا ہوگیا کیونکہ عدالت میں جا کر وہ مکر گیا اور اس نے پھر قتل و غارت شروع کردی۔ اب اس بل کے پاس ہو جانے کے بعد اس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ بہت سے عادی مجرم یا فرقہ واریت کے حوالے سے قتل کرنے والے مجرم یا امریکہ کے خلاف جنگ کے نام سے دہشت گردی کرنے والے اور پاکستان میں موجود امریکی بلیک واٹر اور دیگر تنظیموں کو لگام دی جاسکے گی تاہم اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ یہ بل غلط استعمال ہو اور یہ اکثر ہوتا ہے جیسا کہ امریکہ میں پیٹریاٹ بل کے پاس ہونے کے بعد ہوا۔ وہ اب تک مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور خود اچھے سے اچھے مسلمان امریکی شہری کے ٹیلیفون ٹیپ کرتے ہیں اور کئی لوگوں کو بے گناہ سزا کے مرحلے سے گزارتے ہیں یا انہیں ہراساں کرتے ہیں جس کا ذکر اخبارات میں آتا رہتا ہے اور امریکی انسانی حقوق کی سوسائٹی اس پر سخت اعتراض کرتی دکھائی دیتی ہے، اسی طرح پاکستان میں بھی اس پر اعتراضات شروع ہوگئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ یہ قانون انسانی حقوق سے متصادم ہے اور شہریوں کی پرائیویسی متاثر ہوگی، نہ صرف یہ بلکہ سیاسی طور پر غلط استعمال ہوگا۔ لوگوں کو ایجنسیاں اپنے دشمنوں کو سزا دینے اور دوستوں کو نوازنے کا کام کریں گے۔ اس بل پر قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد چوہدری نثار علی خان نے سخت تنقید کی اس کے بعد تین وزراء نے ان کے ساتھ علیحدہ ملاقات کی اور اُن کی طرف سے پیش کردہ تین ترامیم کو منظور کرلیا۔ انہوں نے کہا کہ اُن کی طرف سے 32 ترامیم پیش کی گئی تھیں وہ سب کی سب مان لی گئی تو ہم نے یہ بل منظور کیا تاہم خدشات ابھی بھی موجود ہیں کہ یہ قانون غلط طور پر استعمال ہو گا۔ اس سلسلے میں میں نے اٹلی میں ستّر کے عشرے میں اٹلی کے پارلیمانی ممبران میں جو تحمل دیکھا وہ سب کے لئے ایک مثال ہے۔ 1970ء میں قائم ہونے والی مارکسسٹ ولنینسٹ پارٹی ریڈبریگیڈ نے اٹلی میں بہت قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ میں1977ء میں اٹلی گیا اور وہاں کئی سیاسی پارٹیوں کے سربراہان اور ممبر پارلیمینٹ سے ملاقات کا موقع ملا۔ وہ ریڈ بریگیڈ کی دہشت سے خوفزدہ تو تھے مگر کسی طور پر اپنی پولیس کو یہ اختیار نہیں دینا چاہتے تھے کہ وہ کسی شہری کی پرائیوٹ زندگی میں دخیل ہو۔ حد تو یہ ہے کہ انہوں نے کسی گھر پر چھاپہ مارنے تک کی اجازت نہیں دی اگرچہ دہشت گردی عروج پر تھی، میں نے وہاں کے پولیس چیف سے پوچھا کہ اُن کو کیا مشکلات ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہمیں کئی دفعہ یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ریڈبریگیڈ کا کوئی اہم رہنما کسی مکان میں موجود ہے مگر ہم اُس کو چھاپہ مار کر گرفتار نہیں کرسکتے۔ اس پر میں نے پارلیمینٹ کے ممبران سے کہا کہ وہ ایسا قانون کیوں نہیں بناتے کہ پولیس ان دہشت گردوں کو گرفتار کرلے، تو انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے پولیس کو ایک مرتبہ شہریوں کی پرائیویسی میں دخل دینے کے اختیارات دے دیئے تو پھر ہم ان سے واپس کیسے لے سکیں گے اور یہ کون نہیں جانتا کہ پولیس قانون کو غلط استعمال کرنے سے نہیں چوکتی تاہم اٹلی کی واحد مثال ایسی ہے کہ انہوں نے 1980ء کے عشرے میں ریڈ بریگیڈ کو ختم کردیا جبکہ ان کا لیڈر پہلے ہی گرفتار کیا جاچکا ہے ۔ اگرچہ اٹلی اور پاکستان میں فرق تو ہے مگر پاکستان نے ایسا قانون بنانے میں کافی دیر لگائی اور اس وقت یہ پاس ہونے کے مراحل میں ہے جب نقصانات بہت بڑھ گئے ہیں اور ان دہشت گردوں کے عزائم بہت خطرناک ہیں۔ وہ کسی قاعدے قانون کو نہیں مانتے، وہ اندھے ہو کر پاکستان کی ریاست کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں اس سلسلے میں اتفاق رائے بڑھتا جارہا ہے کہ ان سے اب آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے جو پکڑا جائے تو پھر وہ رہا نہ ہوسکے۔ وہ ریڈیو، ٹی وی پر برملا بیان دیتے ہیں اور ہر دہشت گردی کی دیدہ دلیری کے ساتھ ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ ایسے میں ان کے خلاف کارروائی کرنا ضروری ہوگئی ہے اور اس کے لئے فیئر ٹرائل نامی قانون سازی کی بہرحال ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں نے اس بل کے پاس کرنے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔
تازہ ترین