• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریز نے گزشتہ روز نیویارک میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران تنازع کشمیر اور پاک بھارت تعلقات سے متعلق ایک پاکستانی صحافی کے سوال پر بہت کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا جس سے اس معاملے کے بنیادی حقائق پر روشنی پڑتی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ ادارہ اقوام متحدہ گزشتہ سال 14جون کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایک رپورٹ ان واقعات کی تحقیقات کیلئے کمیشن کے قیام کی تجویز کے ساتھ جاری کر چکا ہے۔ پاک بھارت تنازعات کے منصفانہ تصفیے کی خاطر مذاکراتی عمل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ اس مقصد کیلئے معاونت فراہم کرنے کی ذمہ داری پوری کر چکا ہے اور وہ بذات خود مذاکرات کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی پیشکش کر چکے ہیں۔ لیکن ان کوششوں کے نتائج سیکریٹری جنرل کے الفاظ میں بس یہ رہے کہ ’’پاک بھارت مذاکرات کی سمت میں اب تک کوئی کامیاب پیشرفت نہیں ہو سکی ہے‘‘۔ اس کے باوجود انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ بین الاقوامی معاملات میں اپنی اہمیت کے پیش نظر پاکستان اور بھارت بالآخر معنی خیز مذاکرات کا راستہ ہی اختیار کریں گے۔ خدا کرے ان کی یہ امید حقیقت بن سکے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے اور دونوں ملکوں کے تعلقات کی بحالی کیلئے عالمی ادارے کے سربراہ کی پرخلوص اور سنجیدہ کاوشوں کے نتیجہ خیز ہونے میں اصل رکاوٹ کیا ہے؟ اس بات کو جاننے کیلئے کسی لمبی چوڑی کھکیڑ کی ضرورت نہیں ، صرف کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پہلی بار جاری کی گئی اقوام متحدہ کی محولہ بالا رپورٹ پر پاکستان اور بھارت کے ردعمل پر ایک نگاہ ڈال لینا کافی ہے۔ تقریباً سات ماہ پہلے منظر عام پر آنے والی اس رپورٹ میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ زید رعد الحسین کا کہنا تھا کہ وہ انسانی حقوق کونسل پر زور دیں گے کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایک جامع بین الاقوامی تحقیقات کرنے والے کمیشن آف انکوائری (سی او آئی) کے قیام پر غور کرے۔ حکومت پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس رپورٹ اور اس میں تجویز کردہ کمیشن آف انکوائری کے قیام کا فوری طور پر خیر مقدم کیا اور اس ضمن میں اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ لیکن بھارتی وزارت خارجہ نے 14جون ہی کو اپنے فوری ردعمل میں جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ پر سخت اعتراضات کرتے ہوئے اسے ’’امتیاز پر مبنی، جھوٹ کا پلندہ، گمراہ کن اور بھارت کی حاکمیت اور علاقائی سلامتی کی خلاف ورزی‘‘ کے مترادف قرار دیا حالانکہ اگر بھارت کا دامن اتنا ہی صاف ہے تو اسے تحقیقاتی کمیشن کیلئے اپنے دروازے کھولنے میں کوئی تکلف نہیں ہونا چاہئے تھا، تاہم بھارتی وزارت خارجہ نے رپورٹ کے مرتبین کی نیت اور ارادے تک پر شک کا اظہار کیا اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ کہا کہ پورا کشمیر بھارت کا ہے اور پاکستان نے اس کے ایک حصے پر پر جبری قبضہ کر رکھا ہے۔ بھارت کا یہ موقف جس قدر کھوکھلا اور بے بنیاد ہے، تنازع کشمیر کے پس منظر اور تفصیلات سے آگاہ ہر شخص اسے بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ اقوام متحدہ میں پوری عالمی برادری کے سامنے بھارت کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کرتے ہوئے کشمیریوں کو رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق دینے کی ٹھوس یقین دہانیاں کرا چکا ہے اور اس بارے میں اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں میں اس کی مکمل منظوری شامل ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ تنازع کشمیر کے منصفانہ حل اور دیگر معاملات کیلئے بامعنی پاک بھارت مذاکرات میں اصل رکاوٹ بھارتی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی ہے۔ بھارت کی اس روش میں تبدیلی اس وقت تک ممکن نظر نہیں آتی جب تک اقوام متحدہ کشمیر سے متعلق اپنی قراردادوں پر عمل کرانے کیلئے بھارت پر اسی طرح دباؤ نہ ڈالے جیسے مشرقی تیمور، بوسنیا اور جنوبی سوڈان وغیرہ کے معاملات میں متعلقہ ملکوں پر دباؤ ڈالا گیا تھا۔ اس صورتحال پر اقبالؔ کے ان الفاظ سے بہتر تبصرہ ممکن نہیں کہ ’’رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم، عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد‘‘۔

تازہ ترین