• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پنجاب کے اہلکاروں کی ساہیوال میں کار سوار خاندان پر فائرنگ سے کار میں موجود ماں، باپ، تیرہ سالہ بہن اور ڈرائیور کی ہلاکت کا واقعہ جس قدر سفاکانہ اور المناک ہے، وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ کسی مہذب معاشرے میں قانون کے محافظوں کے ہاتھوں اس طرح کا فعل محض قابلِ مذمت نہیں بلکہ ایسی عبرتناک تادیبی کارروائی کا متقاضی ہے کہ آئندہ کبھی کسی کو ایسی غیر ذمہ دارانہ حرکت کا حوصلہ نہ ہو۔ وزیراعظم نے سانحے کی رپورٹ طلب کر لی ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم پر فائرنگ میں ملوث اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ تحقیقات کے لئے آئی بی، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دیدی گئی ہے جو تین دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ ادھر سی ٹی ڈی کے ترجمان کا موقف ہے کہ مارے جانے والے افراد دہشت گردوں کے سہولت کار تھے جن کے قبضے سے تین بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں، تاہم بچوں کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے میاں بیوی ان کے والدین، ان کی 13سالہ بہن اور گاڑی ڈرائیو کرنے والا والد کا دوست تھا، جن پر ہماری آنکھوں کے سامنے گولیاں برسائی گئیں اور ہمارے والدین اپنی زندگی کی بھیک مانگتے رہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں سی ٹی ڈی کے اہلکار قصور وار ثابت ہوئے تو ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ابتدائی طور پر اس واقعہ کے دو بنیادی پہلو سامنے آرہے ہیں۔ ایک یہ کہ بے گناہ اور نہتے شہری اپنے بچوں کے ہمراہ لاہور سے بورے والا رشتہ داروں سے ملنے جا رہے تھے کہ سی ٹی ڈی نے گاڑی روک کر ان پر فائرنگ کر دی۔ اس لحاظ سے یہ واقعہ بذاتِ خود دہشت گردی ہے جو کسی مہذب معاشرے میں پولیس کے فرائض کی انجام دہی کے نام پر کسی بھی طور قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔ دوسرا پہلو یہ سامنے لایا جا رہا ہے کہ کار میں سوار افراد دہشت گردوں کے سہولت کار تھے ۔فی الواقع ایسا ہی ہو تب بھی کئی سوال جواب طلب ہیں۔ سی ٹی ڈی فورس کسی بھی شخص کو کسی ثبوت کے موجود نہ ہونے کے باوجود محض دہشت گردی کے شبہ میں کسی وارنٹ کے بغیر گرفتار کر لینے کا غیرمعمولی اختیار رکھتی ہے۔ اگر کسی مشتبہ شخص کی گرفتاری مقصود ہو تو مطلوبہ شخص کو پہلے وارننگ، پھر ہوائی فائرنگ اور سنگین صورتحال میں ٹانگ پر گولی مار کر روکا جا سکتا ہے لہٰذا اہلکاروں کا ایک خاندان کے پُرامن افراد کو ان میں سے کوئی بھی آپشن استعمال کیے بغیر گولی مار کر ہلاک کر دینا واضح طور پر ناقابلِ معافی جرم ہے، جس کی قانون کے مطابق سزا لازماً دی جانی چاہئے۔ سی ٹی ڈی کا قیام آٹھ سال پہلے عمل میں آیا تھا اور اس کی خصوصی ذمہ داری شدت پسندی اور دہشت گردی پر نظر رکھنا قرار دی گئی تھی، تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ اس محکمہ کو محض شبہے میں لوگوں کے قتل عام کا لائسنس دے دیا جائے۔ سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کا یہ کہنا حقائق کے عین مطابق ہے کہ پنجاب سمیت ملک بھر میں دہشت گردوں سے مقابلوں کے نام پر پولیس اب تک بے شمار بے گناہ افراد کو ہلاک کر چکی ہے۔ کراچی میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ ساہیوال کے اس واقعہ میں والدین دہشت گرد یا ان کے سہولت کار تھے تو کیا ان کی 13سالہ بچی اریبہ بھی اس میں شریک تھی؟ اسے کس گناہ کی پاداش میں ہلاک کیا گیا؟ پولیس اہلکاروں کو دہشت گردوں کو ہلاک کر دینے کے بعد ان کی لاشیں موقع پر چھوڑ کر جانے کی بھی اجازت نہیں ہوا کرتی اور سب سے بڑی بات یہ کہ کار میں سوار خاندان کو گرفتار بھی کیا جا سکتا تھا۔ واقعے میں سامنے آنے والے یہ تضادات ایسے ہیں جنہیں حکام سمیت کسی کیلئے بھی جھٹلانا ممکن نہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ اس سانحے کی مکمل طور پر شفاف تحقیقات مقررہ مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچائی جائیں اور تمام حقائق بلاتاخیر قوم کے سامنے لاکر اس ظلم و سفاکی کے ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق سخت ترین کارروائی کی جائے تاکہ ایسے سنگدلانہ سانحات کے اعادے کے خدشات کا مستقل سدباب ممکن ہو۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین