• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) میں سینئر نائب صدر منتخب ہونے کے بعد فیڈریشن کی نئی قیادت بزنس کمیونٹی کے اہم مسائل پر حکومت کی توجہ دلا کر انہیں حل کروانا چاہتی ہے۔ وزیراعظم، وزیر خزانہ اور وزیر تجارت سے ملاقاتوں میں انہوں نے ملک میں صنعتوں کی بحالی، ایکسپورٹ گروتھ سے معیشت کی بحالی اور نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن اس کیلئے ہمیں اپنی پالیسیوں میں اصلاحات لانا ہوں گی۔ اس سلسلے میں فیڈریشن کی دعوت پر گزشتہ ہفتے وزیر خزانہ اسد عمر ایف پی سی سی آئی آئے اور تاجروں، صنعتکاروں اور بزنس کمیونٹی کے دیگر نمائندوں سے ملاقات کی۔ میٹنگ کا ایجنڈا ’’پاکستان میں بزنس کرنے میں حائل مشکلات‘‘ تھا۔ ایک گھنٹے سے زائد رہنے والی اس میٹنگ میں بزنس کمیونٹی نے اپنے مسائل پیش کئے۔ میں نے اپنی پریذنٹیشن میں وزیر خزانہ کو بتایا کہ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں بزنس کرنے کی سہولتوں میں 190ممالک میں پاکستان کا 136واں نمبر ہے جو گزشتہ سال 147تھا جبکہ بھارت جنوبی ایشیا میں 77ویں نمبر، بھوٹان 89، سری لنکا 100ویں نمبر، نیپال 110اور پاکستان 136ویں نمبر پر آتا ہے، جس کے بعد خطے میں افغانستان 167نمبر اور بنگلہ دیش 176ویں نمبر پر ہے۔ دنیا میں بزنس کرنے کی سہولتوں کا موازنہ کرنے کیلئے 10پیمائشی ستون مرتب کئے گئے ہیں جس میں پہلے نمبر پر بزنس شروع کرنے کی سہولتیں، دوسرے نمبر پر فیکٹری کی تعمیر کیلئے اجازت نامے لینا، تیسرے نمبر پر بجلی، گیس اور پانی کے کنکشنز فراہم کرنا، چوتھے نمبر پر فیکٹری اور بلڈنگ کو رجسٹرار کے پاس رجسٹرڈ کرانا، پانچویں نمبر پر بینکوں سے قرضہ لینا، چھٹے نمبر پر سرمایہ کار کو تحفظ فراہم کرنا، ساتویں نمبر پر ٹیکسوں کی ادائیگی، آٹھویں نمبر پر سرحدوں کے آر پار تجارتی لین دین کی سہولتیں، نویں نمبر پر حکومتی اور نجی اداروں کے معاہدوں پر عملدرآمد اور دسویں نمبر پر تنازع کی صورت میں قانونی طریقوں سے مسائل حل کرنا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان ان دس پیمائشی ستونوں پر کس حد تک پورا اترتا ہے جس کی بنیاد پر پاکستان کی بزنس کرنے کی سہولتوں میں دنیا میں رینکنگ کی جاتی ہے۔

بزنس شروع کرنے کی رینکنگ میں پاکستان کا 190ممالک میں 130واں نمبر ہے۔ بزنس شروع کرنے میں ہمارے ہاں 10مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس میں کم از کم 17دن لگ جاتے ہیں جبکہ بھارت میں 16دن لگتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سری لنکا میں بزنس شروع کرنے میں 7مراحل طے کرنا پڑتے ہیں جس میں صرف 9دن درکار ہوتے ہیں۔ فیکٹری کی تعمیر میں پاکستان کی رینکنگ 166ویں نمبر پر ہے۔ تعمیرات شروع کرنے سے پہلے ہمیں 19مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس میں سرمایہ کار کو 263دن لگ جاتے ہیں جبکہ بھارت میں یہ کام 99دن اور سری لنکا میں 87دن میں ہوتا ہے۔ جس کی اہم وجہ ان ممالک میں اجازت نامے کیلئے آن لائن کمپیوٹرائزڈ نظام کا ہونا ہے۔ فیکٹری کیلئے بجلی، گیس و پانی کے کنکشن حاصل کرنے میں پاکستان کا نمبر 167ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کار کو یوٹیلیٹی کنکشنز حاصل کرنے کیلئے 6مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس میں 185دن (6 ماہ سے زائد) لگ جاتے ہیں لیکن درحقیقت گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں صنعتی گیس، بجلی اور پانی کے کنکشنز پر پابندی ہے اور اگر کچھ سرمایہ کار یوٹیلیٹی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کیلئے انہیں رشوت اور تعلقات کا استعمال کرنا پڑتا ہے جو منصوبے کی لاگت میں اضافے کا سبب بنتا ہے جبکہ سری لنکا میں سرمایہ کار کو صرف 5مراحل سے گزر کر 100دن کے اندر یوٹیلیٹی کنکشنز مل جاتے ہیں جس کی وجہ سے سری لنکا انڈیکس میں 84ویں نمبر پر ہے۔ میں نے وزیر خزانہ سے درخواست کی کہ ملک میں صنعتکاری کے فروغ کیلئے حکومت کو جلد از جلد گیس، بجلی اور پانی کے صنعتی کنکشنز پر عائد پابندی ختم کرنا ہوں گی۔رجسٹرار کے پاس فیکٹری رجسٹرڈ کروانے میں پاکستان کا 181واں نمبر ہے جبکہ بھارت کا نمبر 166اور سری لنکا کا 146واں نمبر ہے۔ پاکستان میں پراپرٹی رجسٹرڈ کروانے میں 8مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس میں 208 دن لگ جاتے ہیں اور اس پر پراپرٹی ویلیو کا تقریباً 4.2فیصد خرچ آتا ہے جبکہ بھارت میں پراپرٹی رجسٹریشن کیلئے 85دن اور سری لنکا میں 39دن لگتے ہیں۔ بزنس کیلئے بینک سے قرضے کا حصول نہایت اہم ہے جس میں پاکستان کا 124واں نمبر ہے۔ اس کی اہم وجہ بینکوں کا فیکٹری پراپرٹی اور دیگر اثاثوں کو گروی رکھنے کا طویل اور مشکل طریقہ کار ہے۔ میں نے وزیر خزانہ کو بتایا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں عموماً کرائے کی عمارت میں ہوتی ہیں اور بینکوں کے پاس گروی نہیں رکھوائی جا سکتیں۔ اسٹیٹ بینک کے قرضے دینے کے نئے قوانین کے مطابق بینکوں کو چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو کیش فلو کی بنیاد پر قرضے دینا چاہئیں لیکن بینک آج بھی چھوٹے سرمایہ کاروں سے اپنے ذاتی اثاثے گروی رکھنے پر زور دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کیلئے قرضوں کی شرح سود 18سے 20 فیصد ہے جو نہایت زیادہ ہے جبکہ بھارت کا بینکوں کے قرضے دینے میں 22واں نمبر ہے۔ ٹیکسوں کی ادائیگی میں 190ممالک میں پاکستان 173ویں نمبر پر ہے جس کی اصل وجہ ایکسپورٹرز کے سیلز اور انکم ٹیکس ریفنڈز میں طویل تاخیر ہے۔ حکومت کا اِن ڈائریکٹ ٹیکسز اور موجودہ ٹیکس دہندگان پر بڑھتے ہوئے انحصار کی وجہ سے نئے ٹیکس دہندگان ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ہورہے اور موجودہ ٹیکس دہندگان پر ہی ٹیکسوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔

پاکستان میں ایک کمپنی تقریباً 47اقسام کے مختلف ٹیکسز کی ادائیگی کرتی ہے جس میں 294گھنٹے لگ جاتے ہیں جو بھارت اور سری لنکا کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ سرحدوں کے آر پار تجارت کرنے میں پاکستان 29ویں نمبر پر ہے جو خوش آئند بات ہے جبکہ بھارت 66ویں نمبر پر ہے۔ بھارت سرحدوں پر الیکٹرونک ٹرانزیکشن سسٹم لگا کر وقت اور لاگت کم کرنا چاہتا ہے۔ سرمایہ کاری اور تجارتی معاہدوں پر عملدرآمد کرانے میں پاکستان 156ویں نمبر پر ہے جس پر تقریباً 1096دن اور 18فیصد لاگت آتی ہے جو بہت زیادہ ہے جبکہ بھارت 163اور سری لنکا 92ویں نمبر پر ہے۔ کمرشل تنازعات قانونی طریقے سے حل کرنے میں پاکستان بہت پیچھے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں کمرشل تنازعات حل کرنے کیلئے ADRMمیکنزم اب تک موجود نہیں جبکہ کورٹ کے ذریعے کلیم حاصل کرنے میں طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ میں نے اپنی تقریر میں وزیر خزانہ کو بتایا کہ ان مشکلات کی بنیاد پر پاکستان میں بزنس کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں بزنس کرنے کی لاگت میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹ غیر مقابلاتی ہوتی جا رہی ہیں لہٰذا ہمیں صنعت اور ایکسپورٹ سے معاشی ترقی اور نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کیلئے مذکورہ رکاوٹیں دور کرکے پیداواری لاگت میں بھی کمی لانا ہو گی، نہیں تو وزیراعظم اور نئی حکومت کا صنعتوں اور ایکسپورٹس سے معاشی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔

تازہ ترین