ساہیوال میں ہونے والے انسانیت سوز واقعہ نے دل ہی دہلادیئے ۔ لیکن یہاں وفاق اورصوبوں کے درمیان اختیارات کے حوالے سے سرد جنگ جاری ہے۔ دونوں اپنے آپ کو بااختیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت حکومت کے بااختیار ہونے سے زیادہ ضروری اداروں کو بااختیار ہونا اور ان کی اصلاح ۔ افسوسناک بات ہے کہ ہمارے سارے اہم ادارے ایڈہاک ازم پر چل رہے ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت نظام کے درست اور مستحکم ہونے کی ہے۔ انفرادیت پسندی سے نکل کر اداروں اور نظام کی مضبوطی پر دھیان دیں۔ اختیارات وفاق سے صوبوں اور اب صوبوں سے شہری اور دیہی حکومتوں(ضلعی حکومتوں) تک منتقل کئے جائیں۔ ضلعی سطح پہ بااختیار ہونے کی وجہ سے مسائل سے آگاہی زیادہ ہوتی ہیں اور یوں حل تلاش کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن مرکز کے لیے سب مسائل کاحل تلاش کرنا اتناآسان نہیں ہوتا ۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ابتدائی تعلیم (دسویں جماعت تک) ، صحت کی سہولتوں کی فراہمی ،ٹرانسپورٹ کی فراہمی، سول عدالتوں کا نظام، پانی ونکاسی کا نظام، پولیس کا نظام، اینٹی انکروچمنٹ اور اس جیسے ادارے جن کا براہ راست عوام سے تعلق ہے، ان کے اختیارات ضلعی حکومتوں کے پاس ہونے چاہئیں تاکہ مسائل سے بآسانی آگہی حاصل کرکے انہیں بآسانی حل کیا جاسکے۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ ضلعی حکومتیں اہل رہنماؤں کے پاس ہوں۔ پڑھے لکھے اور اپنے علاقے کے لوگوں کو اہمیت دینے والے لوگ۔ نہ کہ صرف حکمرانی کا شوق رکھنے والے لوگ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ پاکستان میں حکمرانی صرف وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں بااختیار ہونے اور اپنے آپ کو بادشاہ سلامت سمجھتے ہوئے عوام پر اپنا رعب ودبدبا قائم کرنے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ ان کے اندر عوام کے لیے یا علاقے کی ترقی کے لیے کچھ کرنے کی خواہش نہیں ہوتی۔اسی لیے جب حکمرانی ان کے پاس نہیں ہوتی تو یہ " بیمار" ہوجاتے ہیں۔۔ اب وقت کی اہم ضرورت ہے۔ " معیاری تعلیم" جولوگوں میں شعورواحساس بیدار کرے۔ لہذا پہلے نمبر پر معیاری تعلیم، معیاری صحت کی سہولتیں اور آمدورفت کی معیاری سہولتیں بلاتفریق دیہی اور شہری علاقے کوفراہم کی جائیں اور اس کے لیے احتساب کا عمل وقت گزرنے کے بعد نہیں بلکہ دوران ملازمت یااقتدار ہونا بہت ضروری ہے۔ تب ہی ضلعی حکومتوں کا دور بامعنٰی ہوسکے گا۔ قانون کی پاسداری اور قانون کی عملداری کے لیے پولیس کے نظام میں اصلاح کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر پولیس کا نظام درست ہوگا توہی قانون کی بالادستی قائم ہوسکے گی۔ ضلعی سطح پر ان کی تربیت اور تعلیم کے لیے ادارے قائم کئے جائیں، ان کی تنخواہوں اور مراعات میں اس حدتک اضافہ کیا جائے کہ یہ اپنا خرچ اپنی تنخواہ سے نکالیں نہ کہ عوام کی جیب سے۔ پولیس کے نظام کی طرف توجہ دی جائے تاکہ لوگوں کا اعتماد بحال ہو اور وہ کاروبار کی طرف دھیان دے سکیں کیونکہ امن وعامہ کی بحالی سے ہی معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ برائے مہربانی پولیس کو سیاسی اثرورسوخ سے باہرکریں۔ صرف خواص ہی نہیں عوام کی حفاظت کی ذمہ داری بھی انکے سپرد کریں۔ انہیں تعلیم یافتہ بنائیں تاکہ آئندہ ساہیوال جیسا حادثہ دوبارہ نہ ہو۔