• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2019، معاشی چیلنجز میں اضافہ، اپوزیشن متحد، افغان صورتحال مبہم، بھارت سے فوری مذاکرات ناممکن

کراچی( ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کے اسپیشل پروگرام ’’کیسا ہوگا نیا پاکستان‘‘ میں میزبان شہزاد اقبال کے ان سوالات کہ 2019 ء میںمعیشت میں بہتر آئیگی یا معاشی بحران جاری رہے گا؟ دہشت گردی پر قابو پانے کے حوالے سے یہ سال کیسا رہے گا؟ کیا متحد اپوزیشن حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرسکے گی؟ اس سال پاک بھارت مذاکرات شروع ہوسکیں گے؟ اور کیا پاکستان کرکٹ ورلڈ کپ جیت سکے گا؟پر ماہرین نے کہا ہے کہ حکومت کے لئے معاشی چیلنجز میں اضافہ ہوگا،اپوزیشن متحد،افغان صورتحال مبہم اور بھارت سے فوری مذاکرات ناممکن ہیں۔ عامر رانا،مظہر عباس،سلیم صافی اور محمد سہیل نے کہا کہ دیکھنا پڑے گا حکومت معاملات کیسے ہینڈل کرتی ہے، عارف حبیب نے کہا کہ رواں برس بہتری نظر آتی ہے، بینظیر شاہ نے کہا کہ افغانستان میں بہتری کی امید کم نظر آتی ہے، حمزہ علی عباسی نے کہا کہ پاکستانی فلمیں آگے جارک اور بہتر ہونگی، عمیر علوی نے کہا کہ سینما کی تعداد بڑھانا پڑے گی،قمر زمان کائرہ نے کہا کہ اپوزیشن مشاورت سے لائحہ عمل بنائے گی،رانا ثنا اللہ نے کہا کہ حکومت کو ٹف ٹائم دینگے، صداقت عباسی نے کہا کہ ہمارا بیانیہ عوام میں اور مضبوط ہوگیا، حنا ربانی کھر نے کہا کہ فارن پالیسی پر حکومتی اقدام قابل ذکر نہیں، خورشید قصوری نے کہا کہ تحریک کشمیر کنٹرول نہیں کی جاسکتی،امجد شعیب نے کہا کہ بھارت میں کانگریس حکومت آنے سے دشمنی میں کمی آئے گی، شعیب اختر اور عالیہ رشید کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ کے لئے سرفراز کو ٹیم کو ساتھ لے کر چلنا چاہئے، یحییٰ حسینی نے کہا کہ پاکستان کا سیمی فائنل تک پہنچنا معجزہ ہوگا۔تفصیلات کے مطابق جیو نیوز کے اسپیشل پروگرام ’کیسا ہوگا نیا پاکستان‘ میںمیزبان شہزاد اقبال نے مہمانوں کے سامنے سوال رکھا کہ 2018 ء میں عوام نے تبدیلی کو ووٹ دیا لیکن کیا 2019 ء میں تبدیلی آسکے گی اس سال معیشت میں بہتری آئے گی یا معاشی بحران جاری رہے گا۔ 2019 ء میں معاشی چیلنج مزید بڑھ جائیں گے اور دیکھنا پڑے گا کس طرح حکومت ان معاملات کو ہینڈل کرتی ہے کیوں کہ پچھلے دو سال سے کرنٹ اکاؤنٹ اور فزیکل ڈیفیسٹ بہت بڑھ گیا ہے بے یقینی کی سی فضا ہے بزنس مین کو نہیں پتہ کہ کیا یہ کرنسی گرے گی یا نہیں۔معاشی استحکام کے لئے سیاسی استحکام کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پاکستان میں معیشت کے حوالے سے جو سی پیک کی ایکٹویٹی جنریٹ ہوئی تھی اُس پر بھی عمل درآمد پچھلی حکومت کی طرح نہیں ہورہا اور تحفظات برقرار ہیں اور چینی حکومت بھی اس حوالے سے موجودہ حکومت سے مایوس نظر آتی ہے ۔2019 ء میں دو بجٹ آئیں گے ایک آنے والا ہے ایک جون میں آئے گا ایسے میں کیسے یقینی صورتحال پیدا ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار تجزیہ کارمظہر عباس، سلیم صافی ،بینظیر شاہ اور محمد سہیل نے پروگرام میں کیا جبکہ بزنس مین عارف حبیب کا کہنا ہے کہ 2018 ء میں کافی چیلنج رہے اس سال الیکشن بھی تھا اور جب بھی پاکستان میں الیکشن ہوتے ہیں تو معاشی طور پر اس کی ایک کاسٹ آتی ہے۔ 2019 ء میں بہتری نظر آتی ہے اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں اور کچھ ایکسپورٹ بڑھانے اور امپورٹ کو کم کرنے کے اقدامات کیے گئے ہیں۔ اس سوال پر کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے حوالے سے یہ سال کیسا رہے گا کے جواب میں تجزیہ کار عامر رانا، سلیم صافی اور مظہر عباس کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر صورتحال بہتری کی طرف جاتی ہوئی نظر آرہی ہے لیکن ابھی بھی بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ضروری ہے کہ انتہا پسندی کی تشریح کی جائے اور پھر اس کا علاج کیا جائے۔ افغانستان ایک حصہ ہے یہاں پر فرقہ وارانہ معاملات بھی ہیں لیکن سب سے اچھی بات یہ ہے کہ 2013 ء سے بتدریج حالات بہتر ہو رہے ہیں لگتا یہی ہے کہ یہ سال بہتر رہے گا لیکن حتمی طور پر کوئی رائے نہیں دی جاسکتی۔ مستقبل میں قوم پرستی کی بنیاد پر دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔جبکہ دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) امجد شعیب اور تجز یہ کار بینظیر شاہ کا کہنا ہے کہ دیکھنا ہوگا کہ افغانستان میں صورتحال کیا رہتی ہے اگر افغانستان میں استحکام آجاتا ہے تو باہر کے عوامل کنٹرول ہونا شروع ہوجائیں گے ایک آدھ واقعات تو کہیں بھی ہوسکتے ہیں لیکن مجموعی طور پر صورتحال بہتر ہوجائے گی لیکن ابھی تک افغانستان میں جو کچھ ہو رہاہے واضح نہیں ہے۔ مجھے بہتری کی امید کم نظر آتی ہے کیونکہ پاکستان اسے اکیلا لے کر چلنا چاہتا ہے امریکا قابل اعتماد ساتھی نہیں ہے ابھی صرف یہ کہا جاتا ہے کہ طالبان کے ساتھ میٹنگز کرائیں پھر ثالثی کا کہا جائے گا ان حالات میں معاملات آگے بڑھتے نظر نہیں آرہے۔ پاکستانی فلموں کے حوالے سے سال 2019 ء کیسا رہے گا اس حوالے سے اداکار حمزہ علی عباسی کا کہنا ہے کہ ہم فلم انڈسٹری میں ترقی کی طرف گامزن ہیں پہلے دو چار سال میں ایک فلم آتی تھی اب ہر سال ایک دو اچھی فلمیں آرہی ہیں جو آگے جا کر اور بہتر ہوں گی۔ جبکہ عمیر علوی کا کہنا ہے کہ اوسطً سال میں ایک دو فلمیں ایسی ضرور ہوتی ہیں جو انڈین فلموں کے مقابلے میں زیادہ بزنس کرتی ہیں مگر اُن کی تعداد کم ہوتی ہیں انڈین فلموں کے مقابلے میں اور یقینا پاکستان کی فلموں کو بہتری کی طرف لے جانے کے لئے سینماؤں کی تعداد بڑھانا پڑے گی۔ کیا متحد اپوزیشن حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرسکے گی اس حوالے سے سلیم صافی کا کہنا ہے کہ اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن متحد ہوسکے گی یا نہیں اگر متحد ہوگئی تو عمران خان بھی سمجھ سکتے ہیں کہ حکومت کو ٹف ٹائم دے گی۔ ایک پارٹی انقلابی ہوجاتی ہے تو دوسری ڈیل کرنے میں لگ جاتی ہے جب دوسری انقلابی بنتی ہے تو پہلی ڈیل میں مصروف ہوجاتی ہے لیکن حکومت نے اپوزیشن سے متعلق جو غیر سنجیدہ رویہ اپنایا ہوا ہے لگتا یہی ہے کہ اُن کی بھرپور کوشش ہے کہ اپوزیشن کو اکٹھا کیا جائے۔ میرا خیال ہے حکومت کو اصل مسئلہ اندر سے ہے نہ کہ اپوزیشن سے ہے اس سال کے وسط تک عثمان بزدار اور محمود خان وزیر اعلیٰ نہیں رہیں گے اور سال کے آخر تک شاید پارلیمنٹ یہی ہو لیکن عمران خان وزیر اعظم نہیں ہوں گے اور یہ بات میں صرف معیشت کو بنیاد بنا کر نہیں کہہ رہا اس کی اور بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ بینظیر شاہ کا کہنا ہے کہ اپوزیشن تو ٹف ٹائم نہیں دے گی البتہ حکومت کے جو اتحادی ہیں انہوں نے حکومت کو ٹف ٹائم دینا شروع کر دیا ہے۔ دونوں پارٹیز کے اندرونی مسائل ہیں جب تک وہ حل نہیں ہوں گے اپوزیشن پارٹیز متحد نہیں ہوں گے۔ جبکہ مظہر عباس نے کہا کہ جب اپوزیشن قریب آتی ہے تو حکومت کے اتحادی اپنی بارگینگ پوزیشن بڑھاتے ہیں یہی نظر آرہا ہے بی این پی مینگل، ایم کیو ایم پاکستان کی صورت میں نظر آرہا ہے۔ مشکلات حکومت کے لئے ضرور پیدا ہوں گی لیکن اس حد تک نہیں ہوں گی کہ حکومت گرا دیں۔

تازہ ترین