• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طاہرالقادری نے سیاست کے سمندر میں ”ریاست“ کا پتھر کیا پھینکا“جواربھاٹا نے سیاسی ایوانوں میں ہلچل ہی مچا دی۔ادھر سندھ میں پیرپگاڑا کے جلسے سے جنم لینے والا بھونچال تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔اس زلزلے کے آفٹرشاکس سے مخدوم احمد محمود گورنر پنجاب بن کر نکلے اور یوں حالات کا جبر اپنی انتہا کو پہنچا اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ مسلم لیگ سے صوبائی صدر مستعار لینے والی پیپلزپارٹی کو گورنر بھی ادھار لینا پڑا۔مگربالآخر گورنر ہاوٴس پنجاب میں13 سال کے طویل عرصے کے بعد مسلم لیگ کا کارکن قدم رکھنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ 12/اکتوبر1999ء کو سردار ذوالفقار کھوسہ کی سبکدوشی کے بعد سے لے کر گورنر لطیف کھوسہ تک جرنیلوں کے گماشتوں یا جیالوں نے گورنر ہاوٴس پرقبضہ جمائے رکھا۔ مخدوم احمد محمود کی بطور گورنر پنجاب تقرری پی پی اور مسلم لیگ ن کی نئی مفاہمتی پالیسی کا شاخسانہ ہے۔ جسے عمران خان نئی منافقتی پالیسی اور مک مکا قرار دیتے ہیں۔صدر مملکت آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف خفیہ طور پر طے کرچکے ہیں کہ آپس کی لڑائی میں کسی تیسری قوت کو داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔مخدوم احمد محمود کی بطور گورنر تعیناتی سے پنجاب اور مرکز میں نگران حکومت سے متعلق معاملات طے کرنے میں بھی اہم پیشرفت ہوگی،شہباز شریف جو اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔اسی وجہ سے ان کے ساتھ مل بیٹھ کر نگران حکومت سے متعلق معاملات طے کرنے سے بھی کتراتے تھے،اب تمام معاملات مخدوم صاحب کے ذریعے طے کئے جائیں گے اور ڈیڈلاک کی جو فضا بن چکی ہے اسے ختم کیا جائے گا۔ پیپلزپارٹی مرکز میں جبکہ مسلم لیگ ن پنجاب میں اپنے من پسند افراد کو سامنے لا سکے گی۔ اس ساری صورتحال میں پنجاب میں کسی ایسے شخص کی ضرورت تھی جو متنازع نہ ہو اور سب جماعتوں کو قابل قبول ہو۔ مخدوم احمد محمود وہ واحد شخص ہیں جو اس معیار پر سو فیصد پورے اترتے ہیں۔حروں کے قافلے سے تعلق رکھنے والے مخدوم کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ کوئی بات دل میں نہیں رکھتے،مروت وصفداری تو انہیں ورثے میں ملی ہے۔اس شخص نے شہباز شریف سے ناراضی کے باوجود انہیں فون کرکے حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی۔ اختلافات کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے مخدوم احمد محمود میاں شہباز شریف کے انتہائی قریبی دوستوں میں تصور کئے جاتے تھے اور انہی کی شکایت پر میاں صاحب نے دوست محمد کھوسہ کو وزیر بلدیا ت کے منصب سے علیحدہ کیا تھا مگر میاں شہباز شریف کی وعدہ خلافی کے باعث دونوں میں کافی بدگمانیاں پیدا ہوگئیں۔ مسلم لیگ ن کے پاس ضلع رحیم یار خان میں کوئی مضبوط امیدوار نہیں تھا، میاں شہباز شریف نے مخدوم احمد محمود سے وعدہ کیا تھا کہ رحیم یارخان کی تین نشستوں NA-192,194,195 پر مسلم لیگ ن احمد محمود کے امیدواروں کی حمایت کرے گی مگر حال ہی میں میاں شہباز شریف نے ایک سیٹ پر احمد عالم انور اور ایک سیٹ پرر ئیس منیر کو مسلم لیگ ن کا امیدوار نامزد کردیا جس سے مخدوم اورشریفوں میں کافی دوریاں پیدا ہوئیں۔چوہدری برادران کے ساتھ بھی مخدوم احمد محمودکی کشیدگی خوشگوار تعلقات میں تبدیل ہوچکی ہے۔2005ء میں جب پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب تھے اور رحیم یار خان سے مخدوم احمد محمود کی آبائی سیٹ سے منتخب ہوئے تھے،اس وقت ضلع ناظم رحیم یار خان کے انتخاب کے وقت امیدوار رفیق حیدر خان لغاری جو ممتاز سرمایہ کار چوہدری منیر کے حمایت یافتہ تھے۔چوہدری پرویزالٰہی نے مخدوم احمد محمود کے بجائے اپنا وزن رفیق لغاری کے پلڑے میں ڈال دیا اور انہیں کامیاب کرانے کا ہدف بھی حاصل کر لیا مگر ضلع ناظم کی نشست جیت کر وہ مخدوم احمد محمود کا دل ہار گئے۔ بعدازاں فاصلے بڑھے تو اینٹی کرپشن کے ذریعے مخدوم احمد محمود کو جھکانے کا منصوبہ بھی بنایا گیا مگر ڈی جی اینٹی کرپشن گھمن نے بصیرت کا ثبوت دیتے ہوئے یہ قدم نہ اٹھانے کا مشورہ دیا مگر اس مخدوم کی کشادہ دلی بریگیڈیئر اسلم کا بھی جواب نہیں۔2008ء کے انتخابات کے بعد ایک شام میں گلبرگ لاہور کے ایک ریستورا ن میں کھانا کھا رہا تھا کہ اچانک وہاں چوہدری شجاعت تشریف لے آئے۔چوہدری شجاعت کی آمد کے کچھ دیر بعد حادثاتی طور پر مخدوم احمد محمود بھی کھانا کھانے کی غرض سے ہوٹل میں آگئے اور کونے پر پڑی ایک میز پر جاکر براجمان ہوگئے،کچھ دیر بعد چوہدری شجاعت خود اٹھ کر مخدوم احمد محمود کی میز پر تشریف لے گئے اور بغیر کسی عہد کے کہا، اس وقت ہم سے غلط فہمی میں کچھ فیصلے ہوئے، جس پر ہم شرمندہ ہیں،داد ہے اس مرد طرح دار پر جس نے تمام گلے شکوے اورخفگیاں ختم کرکے دوبارہ دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا اور تب سے چوہدریوں اور مخدوم احمد محمود کے تعلقات مثالی ہیں۔ مخدوم احمد محمود کو گورنر پنجاب بنوانے میں سب سے اہم کردار سابق وزیراعظم گیلانی نے ادا کیا ہے اور پیر صاحب پگارا کو بھی انہوں نے ہی یہ بات سمجھائی کہ فنکشنل لیگ کو پنجاب میں اس سے بہتر موقع نہیں مل سکتا۔ یوسف رضا گیلانی جو حال ہی میں زرداری کے ڈنگ سے مستفید ہوئے اور ان کی باتوں میں آکر وزارت عظمیٰ گنوا چکے تھے اس مرتبہ انہیں چکما دے کر اپنے خاندان کے اہم فرد کو پنجاب کا گورنر بنوانے میں کامیاب ہو ہی گئے۔حالانکہ ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ گیلانی کو وزارت عظمیٰ سے علیحدہ کرنے میں زرداری صاحب کا بہت بڑا ہاتھ تھا،انہوں نے ہی گیلانی کو سپریم کورٹ کے آگے ڈٹے رہنے کا مشورہ دیا اور جب فیصلہ ان کے خلاف آگیا تو ہاتھ کھڑے کرلئے مگر زرداری صاحب کے حواری کہتے ہیں کہ مخدوم کو گورنر بنانے کا فیصلہ بھی شطرنج کی چال ہے،زرداری صاحب یہ قدم اٹھا کر بہاولپور صوبہ تحریک کے غبارے سے ہوا نکالنے میں کامیاب ہو چکے ہیں کیونکہ جب تحریک کے سرخیل نے ہی متحدہ پنجاب کے تسلط کو تسلیم کرلیا اور گورنر کا عہدہ قبول کرلیا تو تحریک ویسے ہی تتر بتر ہو جائے گی جبکہ سندھ میں بھی یہ فضا قائم کی جارہی ہے کہ سیاسی مفاد کے لئے فنکشنل لیگ نے اپنے موقف پر سمجھوتہ کیا ہے، بات ہے بھی درست کیونکہ اب سیاسی ورکر اتنا احمق بھی نہیں اور جانتا ہے کہ پیر صاحب پگارا کی مرضی کے بغیر بہاولپور کے مخدوم ایک قدم بھی نہیں چل سکتے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مخدوم احمد محمود سے تین نشستوں NA-195،PP-292،PP-295پر معاملات طے ہوئے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو اس کا سیاسی فائدہ یہ ہوا ہے کہ مخدوم احمد محمود بیک وقت NA-192سے پی پی کے حامد سعید کاظمی اور NA-194 سے مخدوم شہاب الدین کے مقابلے میں مضبوط امیدوار کے طور پر خود سامنے آتے تھے اور مخدوم کی سیاسی میدان میں موجودگی سے پی پی امیدواروں کو شکست سر پر منڈلاتی نظر آتی تھی۔ گورنر پنجاب کے حلف کے بعد مخدوم احمد خود ہی اس دوڑ سے نکل چکے ہیں اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے لئے میدان خالی پڑا ہے۔ اب مخدوم صاحب اور ان کے حامی رحیم یار خان کے بقیہ حلقوں میں بھی پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی حمایت کریں گے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ مخدوم احمد محمود کو صرف الیکشن تک گورنر پنجاب بنایا گیا ہے کیونکہ جونہی نگران حکومت تشکیل دی جائے گی تو مسلم لیگ ق اور دیگر جماعتوں کی طرف سے یہ مطالبہ رکھا جائے گا کہ شفاف انتخابات کے لئے چاروں صوبائی گورنروں کو بھی تبدیل کردیا جائے اور دیگر تین گورنروں کے کوٹے میں مخدوم صاحب بھی فارغ ہوجائیں گے مگر اب یہ مخدوم صاحب کی دانشمندی ہوگی کہ وہ اس صورتحال کا کیسے سامنا کرتے ہیں اور اپنے آپ کو کس طرح اس بھنور سے نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ صدر زرداری سیاسی بساط پر شطرنج کے سب سے کامیاب کھلاڑی سمجھے جاتے ہیں۔اب تک تو ان کی سب چالیں کامیاب ہوئیں مگر اسٹیبلشمنٹ نے ڈاکٹر طاہر القادری کی صورت میں”تُرپ“کا جو پتہ پھینکا ہے اس کا توڑ کیسے ہوگا؟اگر وہ اصلاحات کے ان علمبرداروں کو چکما دیکر بروقت الیکشن کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یقیناً انہیں بیسٹ پلیئر آف دی ایئر کا خطاب دیا جانا چاہئے۔
تازہ ترین