• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’روباہ ‘فارسی زبان میں لومڑی کو کہتے ہیں،اسی’ روباہ ‘ سے’ روباہی‘ کا لفظ نکالاگیاجسے علامہ اقبال نے یوں استعمال کیا تھا ’ اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی ‘مگرمیں اسوقت اللہ کے شیروں کی بات نہیں کر رہامیرا موضوع وہ روباہ مزاج شیر ہیں جوابھی چند دن پہلے مینار پاکستان کے سائے تلے عمران خان کا جلسہ دیکھ کر سہم گئے تھے اور اپنے آپ کو دلاسے دینے کیلئے طرح طرح کی تاویلیں تراشتے رہے ۔حتیٰ کہ یہاں تک کہہ دیا کہ” یہ جلسہ آئی ایس آئی کے چیف کے دفتر کی پیدوار ہے“جس پر میں دیر تک یہی سوچتا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کا دفتر کہیں عمرو عیار کی زنبیل تو نہیں کہ ایک دفتر سے لاکھوں لوگ برآمد ہو گئے۔۔بہر حال عمران خان کے اُس جلسے کے بعد ہفتہ بھر لاہور کی نون گاہ میں کسی مردہ شمشان گھاٹ کاسکوت پھیلا رہا۔کافی دنوں میں۔۔رفتہ رفتہ ۔۔زندگی کے آثار واپس آئے تھے کہ ڈاکٹر طاہر القادری آگئے۔مینارِ پاکستان پھر تاحدِ نظر لوگوں سے بھر گیا۔اور پھر بیچارے خوف زدہ شیروں میں ”روباہیت“ جاگ پڑی۔ پھر نئی نئی تاویلیں کی جانے لگیں۔جھوٹ تراشنے کی فونڈری میں دن رات کام ہونے لگا۔کونسا الزام باقی رہ گیا ہوگا جو ڈاکٹر طاہر القادری پر نہیں لگایا گیاصرف اس لئے کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے آئین کے مطابق الیکشن کرانے کی بات ہے اور دونوں بڑی حکومتی پارٹیاں جو ایک ہوچکی ہیں۔ چاہتی ہیں الیکشن فوری طور پر ہوں چاہے آئین کے مطابق ہوں یا نہ ہوں۔کہیں اقتدار پر ان کی گرفت کمزور نہ ہوجائے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے جلسے کے فوراًبعدٹیلی ویژن کے ڈرامائی مباحثوں میں عجیب و غریب ڈائیلاگ گونجنے لگے۔ بیک گراوٴنڈ میوزک کے طور پر گالی گلوچ بجنے لگا۔کہیں کرسیاں شمار کی جانے لگیں کہیں فیملیوں کاگنا جانے لگا کہیں فیملیوں کے ساتھ آنے والے بچوں کے اعداد و شمارطے ہونے لگے ۔ کسی نے کہا” زیادہ لوگ بڑے شہروں سے نہیں تھے “۔کوئی بولا”لاہور سے تو کوئی تھا ہی نہیں“۔کسی نے گہرافشانی کی ”زیادہ لوگ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ کینڈا اور برطانیہ سے آئے ہوئے تھے“ ۔ کئی ریاضی دان بلا لئے گئے جلسے کے اخراجات کا حساب کتاب کرنے کیلئے۔کسی نے خبر دی کہ جلسہ کے اخراجات امریکی ڈالروں کی صورت میں آئے ہوئے تھے کسی کو اختلاف کیاکہ نہیں اس جلسے کی فنڈنگ برطانوی پونڈوں میں وصول کی گئی تھی ۔ایک خبر کے مطابق چیئرمین ایف بی آر کی ہدایت پرجلسہ کے اخراجات کے متعلق تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں بہر حال پیپلز پارٹی کے ریڈیو زپر اور نون لیگ کی ٹیپ ریکارڈز پر جو کچھ بج سکتا تھا بج رہا ہے
مجھے کسی شخص کے کسی الزام پر بھی کوئی اعتراض نہیں ۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی آواز پر لیبک کہتے ہوئے یہ جو لاکھوں لوگ اکٹھے ہوئے تھے۔وہ کم از کم نون لیگ یا پیپلز پارٹی ووٹر نہیں تھے بلکہ وہ تواس لئے جمع ہوئے تھے کہ اس خستہ بدن ملک کوشریف اور بدمعاش راجہ گدھوں سے نجات دلائی جائے ۔اس کے زخم زخم کو پوری دیانت داری سے رفو کیا جائے ۔لوگوں کو جمہوریت کی اصل خوشبو اور روشنی کا راستہ دکھایا جائے اور انتخابات کے نتائج مکمل طور پر عوامی امنگوں کے مطابق ہوں اس کے ساتھ اس جلسہ میں شریک ہونے والے لوگوں یہ بھی علم تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری خودتو الیکشن لڑنے کا ارادہ بھی نہیں رکھتے۔یعنی یہ تمام لوگ جو اس جلسہ میں جمع تھے وہ کسی تیسری قوت کے ووٹر تھے ۔ میرے خیال میں اس عوامی طاقت کا نام عمران خان ہے ۔ پھرڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اپنا جو ایجنڈا پیش کیا وہ وہی تھاجوایجنڈا عمران خان رکھتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر غور سے دیکھاجائے تو یہ جلسہ عمران کی انتخابی مہم کا ایک جلسہ تھااور اس بات کو نون لیگ یعنی شریف فیملی اچھی طرح جان چکی ہے۔شریف فیملی کایہ دعوی بھی ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ممکن ہے ان کا دعویٰ درست ہو مگر تھوڑی سی آشنائی میری بھی ہے۔
میں ڈاکٹر طاہرالقادری کو اس زمانے سے جانتا ہوں جب وہ گورنمنٹ کالج عیسیٰ خیل میں لیکچررہوا کرتے تھے۔ وہ میرے بڑے بھائی مرحوم محمد اشفاق چغتائی کے دوست تھے ۔ جھنگ سے میانوالی تشریف لاتے تھے تو ہمارے گھر قیام فرماتے تھے اور صبح عیسیٰ خیل جا کر شام کو واپس آجاتے تھے۔پھر انہیں پنجاب یونیورسٹی کے لاء کالج میں ملازمت مل گئی وہ وہاں پڑھانے لگے اوراشفاق بھائی نے شاید ان کے کہنے لا ء میں داخلہ لے لیا حالانکہ وہ اس سے پہلے ایم اے اسلامیات اور ایم اے اردو بھی کرچکے تھے۔انہی دنوں ڈاکٹر طاہر القادری نے اتفاق مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینا شروع کیاتھاانہوں نے وہاں اتفاق اکیڈمی بنیاد رکھی، اشفاق بھائی اس اکیڈمی کے پہلے ناظم اعلیٰ بنائے گئے ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہاں اشفاق بھائی نے بڑی محبت سے ایک وسیع و عریض لائبریری بنائی تھی۔اور بھی بہت سا کام کیا تھاجس جمعہ کو ڈاکٹرطاہر القادری کسی مصروفیت کی بناپر خود خطبہ نہیں دے سکتے تھے تو وہاں اشفاق بھائی خطبہ دیاکرتے تھے۔وہاں اشفاق بھائی کے دفتر میں اکثر اوقات سہہ پہر کی نماز کے بعد نواز شریف بھی آکر بیٹھا کرتے تھے اور گپ شپ کیا کرتے تھے اس وقت نواز شریف پنجاب کے وزیر خزانہ تھے۔نواز شریف کے ساتھ زندگی جو میری ایک آدھ ملاقات ہوئی وہ اسی دوران ہوئی ۔البتہ میاں شریف کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہوئیں ۔وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے بہت مداح تھے پھرکسی معاملہ میں اشفاق بھائی اور میاں شریف کے درمیان جھڑپ ہوگئی اور اشفاق بھائی نے ڈاکٹر طاہر القادری سے یہ کہہ کر اکیڈمی کی نظامت چھوڑ دی کہ یہ سرمایہ دارآپ کے کجا کسی کے بھی دوست نہیں ہوسکتے ۔اس وقت تو ڈاکٹر طاہر القادری کو اشفاق بھائی کی بات پر یقین نہیں آیا تھا مگر بہت جلد انہیں اندازہ ہو گیااور انہوں نے ان لوگوں سے فاصلہ پیدا کرلیا جومفادات کیلئے انہیں اپنے کندھوں پر بیٹھاکرپہاڑی سفر کیا کرتے تھے اور آج اسی کے قصے لوگوں کو سناکر اپنی بڑائی بیان کرتے ہیں۔نواز شریف اور طاہر القادری کے اس پرانے تعلق پر مولانا عبدالستار خان نیازی کا فرمایا ہوا یہ جملہ بڑی معنویت کاحامل ہے۔ ”ماناطاہر القادری نوازشریف کیلئے بال ہماثابت ہواہے مگرشامِ سیاہ بھی یہی ثابت ہوگا“اور میں اسوقت مولانا نیازی کی اس پیش گوئی کا وقت قریب آتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔
عمران خان کے ساتھی یہ تسلیم کریں یا نہ کریں مگرمیں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ انتخابات میں ،ڈاکٹر طاہرالقادری اور الطاف حسین کے علاوہ شاید جماعت اسلامی بھی تحریک انصاف کے ساتھ ہوگی۔اگرچہ میں ذاتی طور پر جماعت اسلامی کے حق میں نہیں ہوں مگرکچھ ایسے فیصلے بھی ہوتے ہیں جو فرشتے لکھ چکے ہوتے ہیں۔مجھے یہ بھی صاف دکھائی دے رہا ہے کہ بہت سے لوگ نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے نکل کر تحریک انصاف شامل ہونے کیلئے پر تول چکے ہیں بس حکومت ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں جن میں سے بیشتر کو شامل نہیں کیا جائے گااور ہاں کچھ اہم ترین لوگ سندھ اور پختون خواہ سے بھی تحریک انصاف میں شامل ہونے والے ہیں، بلوچستان کے مسائل میں بھی تحریک ِ انصاف اہم ترین کردار ادا کرنے والی ہے ۔لیکن عمران خان کی الیکشن میں فتح کے اسباب یہ نہیں ہونگے۔ عمران خان کی فتح کے اسباب تو خود نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے پیدا کر رکھے ہیں۔
انہیں شاید ابھی تک کسی نے بتایا نہیں کہ عمران خان کی جیت کااہم ترین سبب وہ نفرت ہے ۔جس نے لوگوں کے دلوں میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی تکلیف دہ حکومتوں سے جنم لیا ہے جو اہل اقتدار کی اجتماعی کرپشن کی کوکھ سے نکلی ہے۔جسے بھوک نے پروان چڑھایا ہے ۔جس کی مہنگائی نے تربیت کی ہے ۔جو نا انصافیوں میں جوان ہوئی ہے ۔جو لوڈ شیڈنگ میں پلی ہے ۔یعنی عمران خان کی فتح میں حبِ علی کے ساتھ ساتھ بغضِ معاویہ بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
تازہ ترین