• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ سات عشروں کے دوران پاک امریکہ تعلقات کئی طرح کے اتار چڑھائو سے گزرے ہیں۔ سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ سوویت یونین کی دشمنی میں پاکستان پر مہربان نظر آتا تھا اور پاکستانی حکمران اسے سچ مچ کی دوستی سمجھ کر امریکہ کے آگے بچھے جاتے تھے مگر ہر مشکل وقت میں قوم نے دیکھا کہ یہ ’’دوستی‘‘ اس کے کسی کام کی نہیں۔ امریکہ اپنے مفادات کے لئے تو پاکستان کو استعمال کرتا رہا مگر اس پر جب کوئی افتاد پڑی، اس کی مدد کرنے کے بجائے اس سے کوسوں دور کھڑا نظر آیا۔ اس کا یہ کردار 1971 میں ساری دنیا کے سامنے نمایاں ہو کر سامنے آیا جب پاکستان دو لخت ہو گیا اور ساتواں امریکی بحری بیڑا بحر ہند میں کھڑا رہا۔ اس کے باوجود پاکستان نے امریکہ کا ساتھ نہ چھوڑا اور آنے والے وقتوں میں عالمی سطح کی دوبڑی جنگوں میں امریکہ کا اتحادی بن کر بے پناہ جانی و مالی قربانیاں دیں۔ پہلی جنگ سوویت یونین کے خلاف تھی جب اس نے افغانستان پر حملہ کیا اور امریکہ نے پاکستان کو مدد کے لئے پکارا۔ پاکستان نے اس جنگ میں سوویت یونین کی شکست میں اسٹرٹیجک کردار ادا کیا۔ دوسری جنگ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خلاف تھی امریکہ پاکستان کی مدد سے اس میں بھی سرخرو ہوا۔ اگلے مرحلے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی پاکستان امریکہ کے شانہ بشانہ کھڑا رہا۔ اپنے ملک میں اس نے یہ جنگ جیت لی جبکہ افغانستان کے اندر امریکہ بری طرح ناکام رہا۔ اس نے اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا۔ چنانچہ جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بنے تو انہوں نے پاکستان پر گرجنا برسنا شروع کر دیا۔ بجائے اس کے کہ ٹرمپ اور مغربی دنیا دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے قائدانہ کردارا ور قربانیوں کو سراہتے، اپنی ناکامیوں کو بھی اس کے کھاتے میں ڈال کر اسے ’’مجرم‘‘ بنا دیا۔ اس پس منظر میں امریکہ کے رویے میں پہلی تبدیلی اس وقت محسوس کی گئی جب صدر ٹرمپ نے افغان امن میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے مدد کی درخواست کی۔اچھی بات یہ ہے کہ افغان امن عمل میں امریکیوں پر پاکستان کے کردار کی اہمیت واضح ہو گئی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی سینیٹرلنڈسے گراہم کی وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں کے دوررس نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ سینیٹرگراہم نے امریکی سفارت خانے میں میڈیا سے گفتگو کے دوران تجویز پیش کی ہے کہ صدر ٹرمپ کو وزیراعظم عمران خان سے خطے کی صورت حال، باہمی تعلقات اور افغان مسئلے پر جلد از جلد ملاقات کرنی چاہیے اور اس میں افغان صدر اشرف غنی کوبھی شریک کرنا چاہیے۔ عمران خان تبدیلی کے نمائندے ہیں، ان کی موجودگی میں امریکہ کے لئے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کا اچھا موقع ہے۔پاکستان ایٹمی طاقت رکھنے والا 20کروڑ آبادی کا ملک ہے۔ ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔ انہوں نے پاک افغان سرحد محفوظ بنانے کے لئے باڑ لگانے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج نے 18ماہ میں جو کام کیا وہ امریکہ کی 18سال سے خواہش تھی، ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان بھی ایسا ہی کرے۔ امریکی سینیٹرنے تسلیم کیا کہ پاکستان کے لئے بار بار پالیسی بدلنا امریکہ کی غلطی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی امریکی سینیٹرسے ملاقات میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لئے امریکہ اور دوسرے شراکت داروں سے مل کر کام کرتارہے گا۔ سینیٹرگراہم نے پاکستان، امریکہ اور افغانستان کے سربراہوں کی براہ راست ملاقات کا جو نظریہ پیش کیا ہے افغان مسئلے کا حل تلاش کرنے میں اس سے یقیناً مدد مل سکتی ہے بشرطیکہ طالبان کوبھی پوری طرح اعتماد میں لیا جائے اور ان کے تحفظات دور کئے جائیں۔ امریکی صدر کو اس حوالے سے خود پاکستان سے رابطہ کرنا چاہیے تاکہ معاملہ آگے بڑھے کیونکہ یہ بیل اعلیٰ ترین سطح کے رابطوں کےبغیر منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔

تازہ ترین