• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محکمۂ موسمیات کی مسلسل پیش گوئیوں کے بعد کراچی میں بالآخر گزشتہ رات بادل ٹوٹ کر برسے اور شہر جل تھل ہو گیا لیکن بارانِ رحمت کا یہ نزول پوری مقامی انتظامیہ اور تمام بلدیاتی اداروں کی نااہلی کا منہ بولتا اشتہار بھی ثابت ہوا۔ بارش کے پہلے چھینٹے کے ساتھ ہی آدھے شہر کی بجلی غائب ہو گئی اور لاکھوں گھرانے پوری رات اندھیرے میں بسر کرنے پر مجبور ہو گئے۔ شاہراہوں پر جگہ جگہ پانی کھڑا ہو گیا اور شہری گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے رہے۔ سڑکوں پر پھسلن کی وجہ سے ٹریفک حادثات میں متعدد لوگ زخمی ہوئے۔ ملک کے صنعتی و تجارتی مرکز اور سب سے بڑے شہر کا یہ حالِ زار وفاق اور صوبے سے لے کر بلدیاتی محکموں تک‘ ہر سطح کی انتظامیہ اور حکومتوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ بارش‘ زلزلے اور طوفان کی طرح کوئی اچانک ٹوٹ پڑنے والی آفت نہیں۔ موسمی پیشین گوئی کی سائنس آج اتنی ترقی یافتہ ہے کہ کئی دن پہلے سے بارش کے امکانات کا پتا چل جاتا ہے۔ اس کے باوجود صورتحال سے نمٹنے کا خاطر خواہ انتظام نہ ہونا تمام متعلقہ حکام اور اداروں کی کھلی ناکامی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ عشرے پہلے کراچی الیکٹرک اسپلائی کارپوریشن کی نجکاری اس یقین دہانی کے ساتھ کی گئی تھی کہ اس کے نتیجے میں کراچی جیسے میٹرو پولیٹن شہر میں بجلی کی فراہمی کا نظام عالمی معیار پر لایا جا سکے گا لیکن اتنی مدت گزر جانے کے بعد بھی بجلی کی ترسیل کے نظام کی بوسیدگی کا کم و بیش وہی حال ہے جو نجکاری سے پہلے تھا جبکہ صارفین کے حصے میں بجلی کے نرخوں میں کئی گنا اضافے کے سوا کچھ نہیں آیا۔ شہر بھر میں کچرے کے ڈھیروں، ٹوٹی ہوئی سڑکوں اور گلی کوچوں میں بہتی سیوریج کی غلاظت کو عوام نے اپنا مقدر سمجھ کر قبول کر لیا ہے، لیکن جب دنیا کے دوسرے بڑے شہروں میں یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں تو کراچی میں کیوں نہیں۔ دنیا کے تمام بڑے شہر مکمل طور پر بااختیار مقامی حکومتوں کے زیرِ انتظام ہوتے ہیں، ماضی میں کراچی میں بھی یہ تجربہ نہایت کامیاب رہا ہے لہٰذا آج بھی شہری حکومت کی بحالی ہی کراچی کے مسائل کے حل کا یقینی ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔

تازہ ترین