• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’پاک امریکہ تعلقات‘‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہونے والی عالمی سیاست کا ایک اہم اور دلچسپ باب ہے۔ دورۂ روس کی دعوت کو نظر انداز کرکے وزیراعظم لیاقت علی خان کا دورۂ امریکہ کی دعوت قبول کرنے سے لے کر جارح سوویت افواج کے افغانستان سے انخلا (1991) تک، پھر واشنگٹن کی نئی جنوب ایشیائی پالیسی میں بھارت کو امریکہ کا ’’فطری اتحادی‘‘ ڈکلیئر کرکے پاکستان کے مقابل زیادہ اہمیت کی پالیسی اختیار کرنے اور مسئلہ کشمیر کو سابق صدر کلنٹن کے عالمی سیاست کا ’’فلیش پوائنٹ‘‘ تسلیم کرنے اور اس کی حقیقت کو سمجھنے کے باوجود اسلام آباد کو مسلسل نظر انداز کرتے ہوئے نائن الیون تک، پھر عملاً پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں فرنٹ لائن پارٹنر اور نان نیٹو اتحادی بنانے سے لے کر اب اسلام آباد کی جانب واشگٹن کی ٹون میں ہونے والی تبدیلی تک، ٹرمپ انتظامیہ کے پاکستان مخالف رویے اور اقدامات تک پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ کا طلاطم مکمل واضح کرتا ہے کہ یہ ہر دو ملکوں کے تعلقات کی طرح کوئی روایتی دوطرفہ تعلقات ہی نہیں رہے بلکہ یہ عالمی اور خطے کی صورتحال کےحوالے سے زیادہ حاوی رہے ہیں۔ دونوں کے خالصتاً دوطرفہ تعلقات بھی، عالمی و علاقائی سیاست کے رجحانات اور صورتحال سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایسی صورت میں کبھی پاک امریکہ تعلقات گڈمڈ ہونے والے قومی مفادات کی بنیاد پر بلند تر ہوگئے اور کبھی متصادم یا کم از کم جدا جدا ہوتے ہوئے ان کا گراف تیزی سے نیچے آ گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آ کر پاک امریکہ نئی پالیسی میں ایک نئی پوزیشن لی اور وہ یہ کہ ’’اب پاکستان امریکہ سمیت اپنے تمام تر بین الاقوامی تعلقات میں امن کے لئے پارٹنر شپ میں تو سرگرم رہے گا لیکن جنگ کے لئے بالکل نہیں‘‘۔ امریکہ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے معمول کے تعلقات قائم رکھنے اور وقار و یکسانیت کے ساتھ بڑھانے میں بھی عمران حکومت بہت واضح ہے اور متعدد بار اس کا اظہار حکومت اور خود وزیراعظم نے کیا۔ اس تناظر میں نئی پاکستانی حکومت قائم ہونے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کے اسلام آباد پر دبائو اور دوری کے ہر اشارے پر عمران حکومت کی لاپروائی وقار اور نئی پوزیشن کے اظہار کو واضح کرنے میں ذرا بھی تاخیر نہیں ہوئی۔

پاکستانیوں کے لئے یہ امر بہت اطمینان بخش ہے کہ امریکہ اب پاکستان کو بے پناہ منفی انداز میں اور بہت زیادہ متاثر کرنے والے مسئلہ افغانستان کو حل کرنے میں بالآخر اہم فریق طالبان سے پُرامن مذاکرات پر آمادہ ہو گیا ہے اور اس کے لئے عملاً کوشاں ہے۔ اس کو یہ ادراک بھی ہو گیا کہ اس ضمن میں بطورِ فریق پاکستان کا تعاون ناگزیر ہے۔ اس کے لئے امریکہ کا کھلا اظہار اور اس کے لئے دبائو کے بجائے قابلِ قبول سفارتی اور پُرامن کوشش بھی خوش کن ہے۔

پاکستان، پاک بھارت تعلقات کی تلخیوں میں بھارتیوں کے پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کو استعمال کرنے کی دہشت گردی سے اپنے طور پر نمٹ رہا ہے اور اس حوالے سے امریکی خاموشی کی بھی انہیں کوئی پروا نہیں۔ اس کا جواب اس نے چین سے بذریعہ سی پیک اپنے تاریخی تعلقات کو بلند تر کرنے کے علاوہ اقتصادی خوشحالی کے Peace initiativeکو نتیجہ خیز بنانے کیلئے روس سے بھی نئے تعلقات کے دروازے کھولنے اور ماضی کی تمام تر تلخیاں ختم کرنے کی پالیسی وضع کر کے دیا ہے۔ خود چین اس میں پاکستان سے اشتراک کرتے ہوئے اس کا دائرہ پُرامن افغانستان، ایران و سعودی عرب تک بڑھانے پر مکمل آمادہ ہے جو پورے خطے اور ہمسایہ خطوں کیلئے امن و استحکام کا سبب بنے گا، بلکہ امریکہ بھی وسط ایشیائی لینڈ لاکڈ ریاستوں میں اپنے اقتصادی مفادات کیلئے اس صورتحال کا فائدہ اٹھائے اور اس میں شریک ہو تو یہ اسلام آباد اور بیجنگ دونوں کیلئے باعث اطمینان ہوگا۔ یوں دنیا امن کی راہ پر چل نکلے گی۔اس کا بینی فشری امریکہ خود اور خطے کے سب ممالک ہوں گے۔ اب بہت کچھ تلخ ہونے اور دوریوں کے بعد جو کچھ امریکہ اور پاکستان دونوں کی اپنی اپنی اہمیت اور حیثیت کو باہمی طور پر تسلیم کرنے کے بعد باہمی مفادات کے حامل خوشگوار اور پُرامن تعلقات بڑھانے کے دروازے کھولنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، ہر دو جانب سے قابلِ تحسین ہیں۔

اس تناظر میں ایسٹ ویسٹ انسٹیٹیوٹ امریکہ کے صدر اور سی ای او اور پاکستان میں سابق امریکی سفیر جناب کیمرون منٹر کی اسلام آباد کے ایک اہم ناشتے میں گفتگو دلچسپ اور غور طلب ہے۔ پاکستانی دانشوروں اور سلامتی و بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے ساتھ اس ناشتے میں ان کی پاکستانیوں کو یہ نصیحت کہ ’’وہ اب پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے ماضی میں نہ رہیں، تعلقات کے نئے مواقع پیدا کریں اور موجود سے فائدہ اٹھائیں‘‘ ہے تو بالکل درست لیکن انہوں نے یہ بات تب کی ہے جب پاکستانی ایسا نہیں کر رہے بلکہ اپنی سلامتی، استحکام و خوشحالی کیلئے وہ نئی راہوں کی تلاش میں ہیں جس میں امریکہ سے کوئی مستقل کُٹی نہیں ہو گئی، اس کی مسلمہ اہمیت کہ مطابق پاکستان کی ہر حکومت امریکہ کی ہر حکومت سے بہتر سے بہتر تعلقات کیلئے کوشاں رہے گی، یہ پاکستان کے بڑے سفارتی چیلنجز میں سے ایک ہو گا۔ لیکن یہ بات شاید ناشتے میں نہیں ہوئی، لیکن ہمارے مہمان اور پُرخلوص دوست شاید یہ ضرور تسلیم کریں گے کہ خود پاکستان کے حوالے سے بھی امریکہ کی یہی پوزیشن ہے کہ وہ پاکستان سے دوری اختیار کرکے اپنے ’’مسلمہ اہم ترین ملک‘‘ ہونے کے سفارتی تقاضے پورے نہیں کر سکتا۔ سو وہ اپنے معترضہ تصورات کے تناظر میں ہی پاکستان کو نہ دیکھتا رہے۔

کیا امریکہ اور کیا پاکستان اور کیا چین و بھارت اور روس، پھر کیا افغانستان، ایران و سعودی عرب سبھی کو عالمی معاشرے کی ظہور پذیر ضرورتوں کو سمجھنے اور ماننے کا زمانہ آگیا ہے۔ طاقت بڑی ہو یا کوئی اقتصادی جن، ملک بڑا ہو یا چھوٹا، کوئی کسی کو دیوار سے لگا کر، دھمکی اور دبائو سے، چالاکی اور دو رخی اختیار کرکے اپنے ہی ’’قومی مفادات‘‘ کا حصول نہیں کر سکے گا۔ زمانہ بدل گیا، بدل رہا ہے اور بدلتا رہے گا، انسانی تہذیب کی اسی زندہ حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے، عالمی معاشرے کے نئے تقاضے پورا کرتے ہوئے اپنی اپنی سکت کے مطابق کردار ادا کرنا ہوگا، جیسے پاک، امریکہ تعلقات کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے اپنے تعلقات میں اتحاد اور طلاطلم کے باوجود نئے زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے میں فرداً، فرداً اور مل کر بھی کردار ادا کیا، وہ اب بھی ایسا کرنے کی سکت رکھتے ہیں، سو جناب منٹر اور آگے بڑھیں۔ اب ہمیں دونوں کو ہی ماضی کی چیونگم چبانا بند کرنا چاہیے اور تازہ سانس لیتے ہوئے جینا چاہئے، شاید اس کیلئے دونوں کو ہی روایتی رویے کے منفی عناصر کو ترک کرکے نئے مواقع کا باہمی فائدہ اٹھانا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین