• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آخر یہ اضطراب کب تک؟ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا؟ کیا پہلی مرتبہ خون کی ہولی کھیلی گئی ہے؟ اور پھر سب رسمی کارروائی پوری تو ہو گئی ہے۔ حکومت یا پھر ریاست مزید کیا کرے؟ ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب پیش آنے والا دلخراش واقعہ بہت افسوسناک تھا مگر وزیراعظم کے معاون خصوصی کے بقول عمران خان بہت رحم دل انسان ہیں، انہوں نے کہہ دیا ہے کہ یتیم ہو جانے والے بچوں کی کفالت حکومت کرے گی۔ پنجاب حکومت کی طرف سے یہ یقین دہانی بھی کرا دی گئی ہے کہ مرنے والے بے قصور ہوئے تو انہیں معاوضہ دیا جائے گا۔ اب اس سے بڑھ کر اور کیا کرے حکومت؟ ویسے افتخار دُرانی بہت مرنجانِ مرنج شخصیت کے مالک ہیں، انہوں نے کسر نفسی سے کام لیا ورنہ سچ تو یہ ہے کہ وزیراعظم پر ہی کیا موقوف، پوری حکومت بلکہ ماں جیسی ریاست بھی بہت رقیق القلب اور مہربان ہے، اب دیکھیں نا حلیم الطبع وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار میانوالی کا دورہ مختصر کر کے رات گئے ساہیوال پہنچ گئے، وزیراعظم نے واقعہ کا نوٹس لے لیا، آئی جی پنجاب نے جانچ پڑتال کے لئے بلاتاخیر جے آئی ٹی بنا دی، سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لینے کی پالیسی پر نظر ثانی نہ کر لی ہوتی تو ممکن ہے سوموٹو بھی لے لیا جاتا، اب چند روز بعد لواحقین کو پرسہ دینے کے لئے ان کے گھر جانے کا سلسلہ شروع ہوگا تو ریاست اس حوالے سے بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گی اور حسبِ فرصت و حسبِ توفیق تمام رہنمایانِ قوم ان نادار لوگوں کے غریب خانوں کو رونق بخشیں گے۔ لیکن کوئی اس لئے مضطرب اور بے چین ہے کہ وردی والوں کو خونِ ناحق پر سزا دی جائے گی اور انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے تو ریاست اتنی دیالو اور کشادہ دل بھی نہیں۔

یقین نہیں آتا تو گزشتہ دس سال کے دوران پیش آنے والے واقعات کی بوسیدہ فائلیں اٹھا کر اپنے منہ پر دے ماریں غالباً مئی 2011ء کو مسلح اہلکاروں نے کوئٹہ کے قریب ایک چیک پوسٹ پر پانچ بے گناہ افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ یہ واقعہ جسے سانحہ خروٹ آباد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس میں چیچنیا سے تعلق رکھنے والی دو برقع پوش خواتین بھی شامل تھیں۔ ریاست نے تب بھی ایسی ہی دریا دلی کا مظاہرہ کیا اور ذمہ داران کا تعین کرنے کے لئے انکوائری ٹریبونل تشکیل دیا۔ چونکہ اس واقعہ کو عالمی سطح پر پذیرائی مل چکی تھی اس لئے رپورٹ دبائی نہیں جا سکتی تھی لیکن انکوائری ٹریبونل نے جن 8اہم شخصیات کو اس سانحہ کا ذمہ دار قرار دیا، انہیں سزا دینے کے بجائے ایک پولیس انسپکٹر کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔ اسی سال کراچی کے علاقے کلفٹن میں بینظیر پارک کے قریب رینجرز نے سرفراز شاہ نامی ایک نوجوان کو گولی مار دی۔ اس طرح کا قتل کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی لیکن پارک میں اتفاقاً موجود ایک کیمرہ مین نے یہ مناظر محفوظ کر لئے اور جب ویڈیو تمام چینلز پر نشر ہونا شروع ہوئی تو قوم کا اجتماعی ضمیر کچوکے کھانے لگا، جوڈیشل ایکٹواِزم کا زمانہ تھا، چار و ناچار از خود نوٹس لینا پڑا۔ مقدمہ انسدادِ دہشت گردی عدالت میں چلا، سزائے موت تو سنائی گئی مگر اعلیٰ عدالتوں نے اسے عمر قید میں تبدیل کر دیا اور پھر گزشتہ برس آخری خبر یہ موصول ہوئی کہ ان اہلکاروں کی باقی ماندہ سزا معاف کرکے انہیں رہا کیا جا رہا ہے۔ یہ تو ابھی کل کی بات محسوس ہوتی ہے کہ کراچی کی سڑکوں پر انتظار حسین نامی نوجوان کو وردی والوں نے مار ڈالا اور پھر 10سالہ معصوم بچی امل کا خون کر دیا گیا مگر جوائنٹ انویسٹی گیشن کمیٹیاں ذمہ داروں کا تعین کرنے سے قاصر رہیں۔

کراچی میں ہی ایک پشتون نوجوان نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا تو پوری قوم اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی مگر رائو انوار کا بال بھی بیکا نہ کیا جا سکا۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی ایک وجہ تو بظاہر یہ ہے کہ وردی والوں کے خلاف تحقیقات بھی تو وردی والوں کو ہی کرنا ہوتی ہیں لیکن درحقیقت بنیادی سبب کچھ اور ہے۔ ایسے دلخراش واقعات پر ریاست کا دل تو پسیج جاتا ہے مگر کیا ہے نا، رحمدلی کی بھی کچھ حدود و قیود ہیں۔جب نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل پر پورے ملک میں بھونچال آیا اور مثبت سوچ رکھنے والے لوگوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ انصاف ضرور ہو گا تو میں کوشش کے باجود مایوسی کے اندھیرے میں امید کا کوئی چراغ روشن نہ کر پایا ۔آپ نے جوش ملیسانی کی شہرہ آفاق غزل تو سنی ہوگی ’’دو بٹا تین‘‘۔ وہ بتاتے ہیں کہ نڈر میں ہے ڈر دو بٹا تین۔ اسی طرح کائونٹر ٹیرراِزم ڈیپارٹمنٹ میں ہی لفظ ٹیرراِزم پوشیدہ ہے تو پھر یہ دہشت گردی کا باعث کیوں نہ ہو؟ ساہیوال میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے مظلوم خاندان کا دُکھ اور درد اپنی جگہ مگر وطن عزیز کے ایسے بدقسمت شہریوں کے بارے میں کیا کہا جائے جو کچھ اس طرح ریاستی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں کہ ان کے حق میں آواز بھی نہیں اٹھائی جا سکتی۔

یادش بخیر! چند روز قبل ایک دوست کے ذریعے معلوم ہوا کہ پنجاب پولیس کی وردی ایک بار پھر تبدیل کی جا رہی ہے شاید وردی سے بہت سی غلط فہمیاں جنم لے رہی تھیں۔ بہرحال وزیراعلیٰ پنجاب کی منظوری سے فیصلہ ہوا کہ ایک بار پھر کالی وردی متعارف کروائی جائے مگر چونکہ اس سے کالے کرتوتوں کی طرف دھیان جانے کا امکان تھا اس لئے یہ ارادہ ملتوی کرکے اسلام آباد پولیس کی طرح نیلی وردیاں تیار کروانے کے لئے ایک کمپنی کو ٹھیکہ دیا جا رہا ہے تاکہ یکم جولائی سے پولیس والوں کو نئی وردیاں پہنائی جا سکیں۔ نئے پنجاب میں پولیس کلچر تبدیل نہیں کیا جا سکتا، کرتوت نہیں بدلے جا سکتے یا پھر مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں ہو سکتا تو کیا ہوا، پولیس والوں کی وردی تو باآسانی تبدیل کی جا سکتی ہے۔

تازہ ترین