• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کی طالبہ مقدمے کی سماعت کیلئے لندن سے روانہ

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) لاہور کی بہادر قانون کی طالبہ جن پر دن دہاڑے چاقو کے 23؍ وار کئے گئے اپنے لا کالج سے رخصت لینے کے بعد لندن سے پاکستان کیلئے روانہ ہوگئیں ہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان کے مقدمے کی سماعت کیلئے 23؍ جنوری کی تاریخ مقرر کی ہے، سماعت 3؍ رکنی بنچ کریگی جسکی سربراہی وہ خود کرینگے۔ 24؍ سالہ خدیجہ صدیقی پر مئی 2016ء میں اس وقت لاہور کی ایک معروف سڑک پر دو درجن سے زائد وار کئے گئے جب انہوں نے اپنی 6؍ سالہ بہن صوفیہ صدیقی کو اسکول سے لیا۔ ان پر ان کے کلاس فیلو شاہ حسین نے حملہ کیا جس نے اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا کہ خدیجہ نے اسکی راہ و رسم کو قبول نہیں کیا اور بات چیت کرنا بند کردی۔ بعد ازاں شاہ حسین نے انہیں بلیک مل کیا اور دھمکی دی۔ تاہم انہوںنے اسے یہ سوچ کر نظرانداز کردیا کہ یہ جلد ہی گزر جائیگی وہ اتنا جانتی ہیں کہ شاہ حسین نے نام نہاد عزت اور انتقام سے لبریز ہو کر انہیں قتل کرنے کیلئے وار کئے حملے سے بچانے کی کوشش میں ان کی چھوٹی بہن کو بھی ایک وار لگا۔ ذاتی طور پر سماعت میں شریک ہونے کیلئے خدیجہ نے اپنی تعلیم سے رخصت لی اور ہیتھرو ایئرپورٹ سے اسلام آباد روانہ ہوئیں۔ روانگی سے قبل اب سٹی لا یونیورسٹی میں بار ایٹ لا کی طالبہ نے اس نامہ نگا ر کو بتایا کہ مجھے امید ہے کہ یہ مقدمہ پاکستان بھر کی خواتین کیلئے امید کی کرن کا کام کریگا۔ پچھلی از خود سماعت کے بعد سے مقدمے کی سماعت نہ ہونے کے باعث میرا حوصلہ کمزور پڑ گیا تھا تاہم اپنی عدلیہ پر مکمل یقین رکھنے کےساتھ میری امید پھر زندہ ہوگئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ انصاف کیا جائےگا کیونکہ اس پوری جدوجہد کے دوران سچ غالب آیا ہے اور یہ ضروری ہے کہ قانون کے تقدس اور مدافعت کے لئے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو واجب سزا ملے۔ یہ آزمائشی مقدمہ ہے اور اسکی اہم بات یہ ہے کہ یہ مستقبل میں خواتین پر تشدد کے مقدمات کے لئے سنگ میل مقدمے کی حیثیت رکھتا ہے۔ انصاف صرف اس لئے بھی نہ کیا جائے کہ مجھے مجرم کے ہاتھوں ضرب لگی بلکہ اگر ایسے جرم پر سزا نہ دی گئی تو اس مقدمے کی طرف دیکھنے والوں کی امیدیں ٹوٹ جائیں گی۔ میں نے ہمت کے اظہار کی مثال قائم کی ہے اور قانونی کارروائی سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنے کے لئے امید شکن الزامات کا سامنا کیا ہے اور یہ جدوجہد جاری رہے گی۔ ایسے ہزاروں مقدمات نالے کی نذر ہوجاتے ہیں کیونکہ اکثریت انصاف کا سہارا نہیں لیتی یا انہیں خاموش کردیا جاتا ہے یہ صرف میری جدوجہد نہیں ہے یہ پورے معاشرے کی جدوجہد ہے میں نے اپنے ا ور ہر اس فرد کے لئے جسے قانون اور انصاف پر یقین ہے اٹھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اس خوفناکی کو یاد کرتے ہوئے جب شاہ حسین نے ان پر چاقو سے حملہ کیا بتایا کہ یہ لاہور میں ایمبیسڈرہوٹل کے باہر ہوا۔ پیچھے سے دھکا دیا گیا اور پہلا وار کیاگیا اور پھر وار اس وقت تک نہیں رکے جب تک میرے ڈرائیور نے مداخلت نہیں کی۔ میں نے سوچا سب کچھ ختم ہوچکا اور میرے بچنے کا کوئی امکان نہیں میں نے کلمہ پڑھایہ ایک کرشمہ ہےکہ میں زندہ ہوں اور انصاف کیلئے لڑ رہی ہوں۔ حملہ آور نے میری چھوٹی بہن کوبھی نہیں چھوڑا اگر ایسے درندوں کو معاشرے میں خونریزی پھیلانے کی اجازت دیدی گئی تو ہم ایک بے قانون معاشرہ بن جائیں گے۔ خدیجہ نے اپنا مقدمہ اجاگر کرنے کی کوشش کی تاہم نظام ناکام رہا یہاں تک کہ اس کے مقدمے نے قوم کا تصور حاصل کرلیا خدیجہ نے کہا کہ میں اپنے مقدمے کو اجاگر کرنے پر شاہ زیب خان زادہ اور جیو نیوز کی مشکور ہوں۔ شاہ زیب اپنے پروگرام کے ذریعے میری، میرے خاندان کی آواز بن گئے اور انصاف کی بات کی۔ سول سوسائٹی کے کارکن اور وکلا جبران ناصر اور حسن نیازی نے میری مدد کیلئے جو کرسکتے تھے کیا اور میرے مقدمے کیلئے کمپین چلائی۔ تہمینہ درانی نے حسب ضرورت اخلاقی حمایت فراہم کی اور پھر بہت سارے افراد ہم آواز ہوگئے و ر پھر ان آوازوں نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی جس کے لئے میں ان سب کی شکرگزار ہوں۔ حملے کے وقت خدیجہ لا ڈگری کے دوسرے سال میںتھیں، اگلے دوسال انہوں نے اسپتال، لا کالج اور عدالتوں کے درمیان چکر لگاتے ہوئے بالآخر اگست 2018ء میں گریجویشن کرلیا، وہ بار ایٹ لا کی اسٹڈی کے لئے گزشتہ سال ستمبر میں برطانیہ آئیں۔ ان کا اپنی تعلیم کی تکمیل کے بعد نا انصافی کے شکار افراد کی مدد کیلئے پاکستان واپس جانے کا منصوبہ ہے میں نے بہت سارا وقت پاکستان میںانصاف حاصل کرنے کی جدوجہد میں گزارا اور محسوس کیا کہ پاکستان میں مافیا کلچر ہے انہیں امید ہےکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لئے ایک ہفتے بعد لندن واپس آجائیں گی میں اپنی کلاسز سے رخصت لے رہی ہوں اور اہم اسباق سےمحروم رہوں گی۔ واضح رہے کہ لاہور کے ایک جوڈیشل مجسٹریٹ نے 29؍ جولائی 2017ء کو اقدام قتل کا مجرم پاتے ہوئے شاہ حسین کو 7؍ سال قید بامشقت کی سزا دی تھی۔ بہرحال مارچ 2018ء میں ایک سیشن کورٹ نے سزا کم کرکے 5؍ سال کردی تھی۔ گزشتہ سال لاہور ہائی کورٹ نے ناکافی شہادت کی بنیاد پر مجرم کو بری کردیا تھا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے جون 2018ء میں اس کا از خود نوٹس لیا تھا اور اب نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مقدمے کی سماعت کیلئے 23؍ جنوری کی تاریخ دی ہے جب وہ ملزم کو بری کرنے کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کریں گے۔ سابق چیف جسٹس نے دو رکنی بنچ کے سربراہ کی حیثیت سے اپیل سپریم کورٹ کی ایک اور دو رکنی بنچ کو بھیجی جس کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ ہیں۔

تازہ ترین