لندن (پی اے) کیبنٹ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے اپنے بریگزٹ پلان میں آئرش بیک سٹاپ پر تشویش کو حل کرتے ہوئے اس کی منظوری کیلئے ٹوری بریگزیٹئرز اور ڈی یو پی کے ایم پیز کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کریں گی۔ تھریسامے کے پلان کو گزشتہ ہفتے کامنز میں بھاری اکثریت سے مسترد کر دیا گیا تھا، جس کے بعد اپوزیشن نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی، جو 19 ووٹوں کی برتری سے ناکام ہو گئی تھی۔ کامنز نے وزیراعظم تھریسامےکو پابند کیا تھا کہ وہ اپنا بریگزٹ بی پلان تین دن میں پیش کریں۔ تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے کے بعد تھریسا مے نے اپوزیشن پارٹیز سے مذاکرات کرنے کا اعلان کیا تھا، تاکہ بریگزٹ پر پیشرفت کی جا سکے۔ اپوزیشن لیڈر جیرمی کوربن نے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک وزیراعظم سے مذاکرات نہیں کریں گے جب تک وہ یہ اعلان نہیں کرتی کہ یورپی یونین سے نوڈیل بریگزٹ نہیں ہوگی۔ ذرائع کے مطابق لیبر کی جانب سے انکار کے بعد اب وہ اپنے ٹوری ایم پیز کو قائل کر کے اس پلان کو منظور کرانے کیلئے کوشاں ہیں۔ کچھ اپوزیشن ایم پیز سے تھریسا مے کے مذاکرات ہوئے ہیں اور ڈائوننگ سٹریٹ کا اصرار ہے کہ کراس پارٹی مذاکرات جاری رہیں گے۔ یورپی یونین سے علیحدگی کے بریگزٹ معاہدے میں بیک سٹاپ انشورنس پالیسی ہے، جس میں یہ یقینی بنایا جائے گا کہ چاہے کچھ بھی ہو، برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے بعد آئرش ری پبلک اور ناردرن آئرلینڈ کے درمیان نظر آنے والا بادرڈ واپس نہیں آئے گا۔ تھریسا مے کے پلان بی پر کامنز میں ارکان بحث کریں گے اور اس میں ترامیم کے بھی امکانات ہیں۔ وزیراعظم کے اس پلان بی پر 29 جنوری کو ووٹنگ ہوگی۔ یہ بھی امکانات ہیں کہ ترامیم کیلئے ارکان کے گروپس کی جانب سے تحاریک پیش کی جائیں۔ ایک ترمیم بیک بینچرز گروپ کی جانب سے پیش کئے جانے کا امکان ہے، کیونکہ وہ بریگزٹ ڈیل میں ارکان کے زیادہ اختیارات کے خواہاں ہیں۔ ایک ترمیم میں نوڈیل بریگزٹ کے آپشن کو ختم اور ممکنہ طور پر آرٹیکل 50 کو معطل کیا جائے۔ ایک گروپ، جس میں لیبر کی یووٹ کوپر، کنزرویٹو کی نکی مورگن اور لبرل ڈیموکریٹس ایم پی نارمن لیمب شامل ہیں، چاہتا ہے کہ برطانیہ یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات کو 29 مارچ سے آگے بڑھائے۔ تھریسا مے کی جانب سے بیک سٹاپ میں تبدیلی یا اس کے خاتمے سے وزیراعظم کے پلان کو منظور کرانے کیلئے ٹوری بریگزیٹئرز ٹوری ایم پیز اور ڈی یو پی کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔