• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیوفیور، افغانستان میں خدما ت انجام دینے والے سابق فوجی کا منسٹری آف ڈیفنس پر مقدمہ

لندن (پی اے) افعانستان میں خدمات سر انجام دینے والے سابق برطانوی فوجی ویان باس نے کیو فیور لاحق ہونے پر منسٹری آف ڈیفنس کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ آرمی کے حکام اسے مرض سے محفوظ رکھنے کیلئے اینٹی بائیوٹکس فراہم کرنے میں ناکام رہے تھے اور اس بیماری نے اس کی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اس کا یہ کیس منسٹری آف ڈیفنس کیلئے اس نوعیت کا پہلا ٹیسٹ ہے کہ اسے بیماری سے محفوظ رکھنا منسٹری آف ڈیفنس کی ذمہ داری تھی۔ یہ ایک انفیکشس ڈیزیز ہے، جو مویشوں میں پائے جانے والے بیکٹریا سے لاحق ہوتی ہے۔ منسٹری آف ڈیفنس کا کہنا ہے کہ جاری قانونی کیسز پر اس کا تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ اس کیس کا پانچ روزہ ٹرائل سینٹرل لندن کائونٹی کورٹ میں ہوگا۔ 2011میں ویان باس کو، جو اس وقت سیکنڈ بٹالین دی مرچنٹ رجمنٹ میں پرائیویٹ خدمات انجام دے رہا تھا اور اسے افغاستان کے صوبہ ہلمند میں تعینات کیا گیا، جہاں طالبان کی موجودگی بہت زیادہ تھی اور یہ علاقہ اس حوالے سے مشہور تھا۔ پی ٹی ای ویان باس کی ذمہ داری میں دیگر فورسز کا تحفظ کرنا شامل تھا۔ باور کیا جاتا ہے کہ اسے کیو فیور کا عارضہ اسی علاقے میں خدمات انجام دینے کے دوران لاحق ہوا۔ کیو فیور مویشیوں، بھیڑ، بکریوں میں پائےجانے والے بیکٹیریا میں زیادہ تر پایا جاتا ہے اور اس ایریا میں ان کی بہتات ہے۔ انسانوں کو کیو فیور کا انفیکشن اس وقت لاحق ہوتا ہے جب انسان اس سے متاثرہ جانوروں کی موجودگی میں سانس لیتا ہے۔ ویان باس کا کہنا ہے کہ میں دشمن کی شدید فائرنگ سے بچنے کیلئے کھائیوں میں چھپتا تھا اور وہاں کافی دیر لیٹا رہتا تھا، ان جگہوں پر فارم جانور موجود ہوتے تھے۔ باس کا کہنا ہے کہ ابتدا میں اس بیماری کی علامات فلو جیسی تھیں جبکہ انٹرا وینس اینٹی بائیوٹکس اس کے علاج میں ناکام تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہسپتال اور ایم او ڈی کے ہیڈلے کورٹ ری ہیبیلیٹیشن سینٹر میں کچھ وقت گزارنے کے بعد ایک آرمی ڈاکٹر نےانکشاف کیا کہ مجھے کیو فیور کا عارضہ لاحق ہے۔ عام طور پر اینٹی بائیوٹکس سے فیور کا کامیاب علاج ہو جاتا ہے لیکن اس کرونک فیٹیگ سینڈروم کے علاج میں عام اینٹی بائیوٹکس کارگر نہیں ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چند روز میں طبعیت سنبھلی تو میں چند سو گز چل سکتا تھا لیکن میری سانس رکنے لگتی تھی۔ میرے پٹھوں میں کچھائو اور جسم میں درد ہوتا اور مجھے طاقت ور درد کش دوائیں لینی پڑتی تھیں۔ ویان باس نے کہا کہ میرے کمر کے نچلے حصے میں شدید نرو پین ہوتا تھا، جس کا مطلب یہ کہ میں نقل وحرکت کرنے کے قابل نہیں۔ مجھے 600 میٹر کا فاصلہ طے کرنے میں 45 منٹ کا وقت لگتا۔ اس صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ میں کام کرنے کے قابل نہیں، اس سے صرف میرے جسم پر ہی اثر نہیں پڑا بلکہ میں پوسٹ ٹرامک سٹریس ڈس آرڈر کا شکار بھی ہو گیا۔ میں نے اس تکلیف میں انتہائی خوفناک راتیں گزاری ہیں۔ میں انتہائی پژمردہ اور تنہائی کا شکار ہو گیا۔ کیس میں ویان باس کی نمائندگی کرنے والی لا فرم ہلیری میریڈیتھ کے ایک پارٹنر جسٹن گلینسٹر نے اس یقین کا اظہار کیا کہ یہ کیس نئی قانونی راہیں متعین کرے گا۔ یہ پہلا کیس ہے جس میں یہ سوال اٹھایا جائے گا کہ کیا فوجیوں کو کیو فیور سے تحفظ فراہم کرنا منسٹری آف ڈیفنس کی ذمہ داری ہے۔ جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ اس خطرے سے بچا جا سکتا ہے اور یہ کہ فوجیوں کو اس سے محفوظ رکھنے کیلئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس جیسے مزید کیسز تیار کئے جا رہے ہیں۔ بی بی سی نے ایم او ڈی کا ڈیفنس دیکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ 2008 سے 2011 کے دوران کیو فیور کے 200 ٹیسٹ سالانہ مثبت تھے۔ منسٹری آف ڈیفنس کا کہنا ہے کہ کیو فیور لاحق ہونے کے خطرات انتہائی کم ہوتے ہیں اور وہ جوائنٹ کمیٹی آن ویکسی نیشن اینڈ امیونائزیشن کی سفارشات پر عمل کرتی ہے۔ جس میں کیو فیور کیلئے کوئی ویکسینیشن تجویز نہیں کی گئی۔ کیو فیور کی ویکسین کیو ویکس برطانیہ میں لائسنس یافتہ نہیں ہے۔ باس کا کیس یہ ہے کہ فوج اسے کیو فیور سے محفوظ رکھنے کی ویکسین دینے میں ناکام رہی۔ سینٹرل لندن کائونٹی کورٹ میں اس کیس کا پانچ روزہ ٹرائل ہوگا۔ 
تازہ ترین