• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انداز بیاں … سردار احمد قادری

یہ نیم خوابی اورنیم بیداری کی کیفیت تھی میں کچھ کچھ نیند میںتھا اور کچھ جاگا ہوا بھی تھا، میں ’’زرہون‘‘ میں سیدنا ادریس اول کے مزار پُر انوار کے پہلو میں آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا اور ہمیشہ کی طرح ان کو سلام پیش کرکے قرآنی آیت کی تلاوت کررہا تھا اور ’’الطریقہ المحمدیہ‘‘ کے وہ مخصوص اذکار پڑھ رہا تھا جس سے ایک ’’ سالک ‘‘ کا روحانی سفر کے مسافر کا روحانی دنیا میں داخلہ ممکن ہوتا ہے اور دل کی آنکھ سے انسان وہ کچھ دیکھ سکتا ہے جو دوسرے نہیں دیکھ سکتے جیسا کہ اقبال کو اللہ تعالیٰ نے وہ آنکھ دی تھی اس لئے اس نے اپنے قاری کو اپنے چاہنے والے کو اپنے کلام کو پڑھنے والے کو ایک بہت قیمتی مشورہ دیا تھا :


دل بینا بھی کر خدا سے طلب

آنکھ کا نور دل کا نور نہیں

اور اقبال جب اپنی باطن کی آنکھ سے دیکھتا تھا تو حیرانی کے سمندر میں غوطہ زن ہوجاتا تھا اور پکار اٹھتا تھا:

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

باطنی آنکھ کا تصور کوئی غیر اسلامی تصور نہیں یہ عین اسلامی تصور ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اور یوں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ ابصار‘‘ یعنی ظاہری آنکھیں کام نہیں آتیں بلکہ مشاہدہ ’’قلوب‘‘ (دلوں) سے ہوتا ہے جو کہ ’’صدور‘‘ انسان کے اندر سینوں میں پوشیدہ ہوتے ہیں سیدنا عبدالعزیز الدباغ نے ’’ الابریز‘‘ کی تعلیمات کی روشنی میں روحانیت کا ایک جادو تصور کے طورپر نہیں بلکہ ایک متحرک ’’ ڈائنامک‘‘ فعال اور ’’سائنس‘‘ کے طورپر متعارف کرایا ہے کہ کوئی بھی سچا مسافر ’’ سالک‘‘ چند ہفتوں یازیادہ سے زیادہ چند مہینوں کی جسمانی اور روحانی پاکیزگی کے مراحل طے کرکے روحانی دنیا میں داخل ہوسکتا ہے۔ بحمدللہ شیخ احمد دباغ کی ہمراہی میں جب پہلی بار اس روحانی دنیا میں داخلے کا موقع ملا تو گویا ایک نئے جہان کے اسرارورموز منکشف ہوئے، اولیا اللہ کا اصل کام ہی پوشیدہ اسرار سے آگاہ اور اَن دیکھی دنیا کو دکھانا ہوتا ہے اور جب طریقت کا مسافر اس پوشیدہ جہان سے واقف ہوتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں جسے غیبی دنیا کہا جاتا ہے ایک کے بعد دوسری دنیا ہے کئی مرحلے ہیں کئی زاویے ہیں کئی گھاٹیاں ہیں جنہیں عبور کرنا ہے، تو جب پہلی مرتبہ میں سیدنا ادریس الاول کی بارگاہ میں حاضر ہوا تھا جو دس سال پہلے کی بات ہے تو انہوں نے کرم نوازی کرتے ہوئے اپنا دیدار کرایا تھا۔ بہت عزت وتکریم سے استقبال فرمایا تھا اور ایک مخصوص دعا تلقین فرمائی تھی اس کے کئی سال بعد ایک مرتبہ ان کے صاحبزادے سیدنا ادریس الثانی نے ایک مخصوص درود پاک عطا فرمایا اور اسے پڑھنے کی تلقین فرمائی جسے اس وقت میں نے لکھ کر محفوظ کرلیا تھا صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے مراقبہ کی کیفیت میں مشاہدہ کی دنیا میں فاس میں اپنی آمد اسلامی سلطنت کے قیام اور استحکام کے چند مناظر کی ایک واضح جھلکیاں دکھادی تھیں کہ ان پر کشف کی کیفیت میں ظاہری آنکھ سے دیکھنے کا احساس ہوتا تھا۔ دسمبر 2018کی زرہون کی حاضری اس لحاظ سے منفرد تھی کہ اس بار شیخ احمد دباغ نے ظاہری طورپر میرے ہم سفر نہیں تھے لیکن باطنی طورپر دیکھا تو وہ میرے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے ہیں، میں ان کی تربیت کو واضح طورپر محسوس کرسکتا تھا، ویسے وہ ہر صبح نمازفجر کے بعد فون کے ذریعے گزشتہ کل کی کارکردگی اور آج کے مجوزہ پروگرام کی تفصیل پوچھ لیاکرتے تھے۔ خیر فون کے ذریعے سے گفتگو تو ایک دنیاوی سلسلہ ہے اگر کبھی ان سے فون پر بات نہ ہوسکے تو روحانی دنیا میں ان تک پیغام پہنچ جاتا ہے اور وہاں سے جواب آجاتا ہے ’’زرہون‘‘ کے اس سفر میں میرے ساتھ دو افراد تھے۔ یہ دونوں نوجوان ڈاکٹر عزیز ادریسی نے میرے ساتھ بھیجے تھے۔ یوں تو یہ ہر لمحے مرحلے میں میرے آرام وسکون کا خیال رکھتے تھے لیکن میں نے محسوس کیا کہ انہیں واپس ’’فاس‘‘ جانے کی زراجلدی تھی جب کہ ہمیں’’ الطریقۃ المحمدیہ‘‘ کے مراقبہ کے آداب میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب کسی ولی اللہ کے مرقد مبارک کے قریب میں بیٹھوتو زندگی کی تمام ضروریات اور حوائج سے فارغ ہوکر بیٹھو اور کسی قسم کی کوئی اور پریشانی اور مصروفیت کو ذہن میں جگہ مت دو عام طورپر لوگ مزارات پر جاتے ہیں دس سے پندرہ منٹ میں سلام کرکے واپس آجاتے ہیں جب کہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ جس طرح کسی شیخ طریقت کی ظاہری زندگی میں آرام وسکون سے حاضری ہوتی ہے اور کچھ گھنٹے ان کی خدمت میں گزارے جاتے ہیں اس طرح روحانی دنیا میں بھی چند گھنٹے نکال کر آرام وسکون سے ان کی خدمت میں بیٹھاجائے، پہلے قرآن مجید کی تلاوت کی جائے پھر مخصوص اذکار پڑھے جائیں اور آنکھیں بند کرکے بیٹھ جائیں، مکمل خاموشی، مکمل سکون ہونا چاہئے ،کوئی آپ کو تنگ نہ کرے، غنودگی کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو ہونے دیں، نیند آتی ہے تو آنے دیں لیکن آرام سے بیٹھے، ایک صاحب مزار خود آکر آپ کو جگائیں گے۔ سیدنا شیخ ادریس اول کی بارگاہ میں اس بار حاضری کے وقت کافی لمحات گزرگئے لیکن حضرت نظرنہ آئے تو میں نے سوچا کہ شاید کچھ گستاخی ہوگئی ہے کوتاہی ہوگئی ہے اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مرکزی دروازے سے تشریف لارہے ہیں۔ آنکھیں بند تھیں، غنودگی کی کیفیت تھی لیکن منظر واضح تھا۔ حضرت اکیلے نہیں تھے، آپ کے صاحبزادے اور ان کے صاحبزادگان بھی ہمراہ تھے، ایسا محسوس ہورہاتھا کہ آپ اپنی حکومت کے اعلیٰ حکام اور اولیا اللہ کے جھرمٹ میں تشریف لارہےہیں پھر آپ اپنے مخصوص تخت پر جلوہ افروز ہوئے آپ کے صاحبزادے اور ان کے صاحبزادگان نے اپنی اپنی نشستیں سنبھال لیں، آپ نے بڑی محبت واپنائیت سے ہماری طرف دیکھا اور شیخ احمددوباغ کے متعلق محبت بھرے کلمات ادا کیے اور ان سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے لئے ارشاد فرمایا۔ شیخ دباغ جن قرآنی آیات کی تلاوت کررہے تھے ان آیات طیبیات کی سماعت سے میں بھی لطف اندوز ہورہا تھا، ابھی میں اس کیفیت میں تھا کہ میرے ہمرا ہی ساتھیوں نے مجھے بڑی نرمی اور آہستگی سے یہاں سے چلنے کی درخواست کی اور وہ خواب سہانا ٹوٹ گیا۔ کشف کی کیفیت کی خوبی ہی یہ ہوتی ہے کہ انسان اس دنیا سے واپس نہیں آنا چاہتا اسی میںمحو و مشغول رہنا چاہتا ہے، اسی میں آسانی اور سکون نظر آتا ہے ’’تیسیر الشاغلین‘‘ میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے شیخ طریقت حضرت موسیٰ پاک گیلانی رحمۃ اللہ علیہ ملتانی نے روحانی شغل میں مصروف لوگوں کی آسانیوں کے لئے رہنما اصول بیان فرمائے ہیں، اس راستے میں پہلے طلب پھر شغل اور پھر سلوک ہوتا ہے۔ طلب سے نیت میں پاکیزگی آتی ہے، شغل سے راستہ نظر آتا ہے اور پھر انسان ’’ سالک‘‘ بن کر راہ سلوک کا مسافر بن جاتا ہے میں  نے سوچا کہ اس بار مختصر حاضری رہی لیکن نہیں قدرت الٰہی میں کچھ اور ہی لکھا تھا، دودن بعد میں پھر ’’زرہون‘‘ کی طرف عازم سفر تھا۔ پروفیسر محمد بوشیشن نے کہا کہ میں نے آپ کو ایک بار پھر اپنے ساتھ ’’ زرہون‘‘ لے کر جانا ہے، لہٰذا میں خوشی خوشی روانہ ہوگیا۔

تازہ ترین