• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے گزشتہ کالم ”یہ جنگ“ کے جواب میں تحریک طالبان صوبہ پنجاب کے امیرمولانا عصمت اللہ معاویہ نے ایک تفصیلی خط ارسال کیا ہے ۔ جس روز یہ خط بذریعہ ای میل ارسال کیا گیا‘ اس روز میں والدہ محترمہ کے ساتھ اسپتال میں مصروف ہونے کی وجہ سے دفتر نہیں جاسکا تھا۔ میں وہاں ہی تھا کہ نامعلوم مقام سے تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان کی کال آئی ۔ ان کا کہنا تھا کہ امیرعصمت اللہ معاویہ نے میرے نام ایک خط ارسال کیا ہے جسے پورے تحریک طالبان کا موقف سمجھاجائے ۔ اس خط کے بعض مندرجات جیو نیوز یا پھر جنگ اور دی نیوز میں خبر کی صورت میں سامنے لائے گئے تو اگلی صبح خود مولانا عصمت اللہ معاویہ نے میرے ساتھ فون پر بات کی اور خط کے بعض مندرجات کی مزید وضاحت کی ۔ ان کا یہ خط یہاں اس خیال سے من وعن نقل کیا جارہا ہے کہ پاکستان کو طالبان کی سوچ اور فکری مقدمات کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
”محترم و مکرم برادرم سلیم صافی صاحب!
السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔
آپ کا مضمون ”یہ جنگ“ نظر سے گزرا ۔ آپ کے مضمون میں اٹھائے گئے چند سوالات کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ مہربانی فرما کر میری اس وضاحت کو دھمکی سے تعبیر فرمائے بغیر توجہ دیں۔ طالبان پاکستان ایک شرعی فریضہ ادا کررہے ہیں ۔ جنگ کا آغاز خود افواج پاکستان نے کیا ۔ طالبان نے اپنی فوج سمجھ کر اس کے ساتھ معاہدہ کیا تو جواباً ملاّ نیک محمد کو شہید کرکے ”اپنی فوج“ کی سوچ کو خاک میں ملا دیا گیا ۔ مجاہدین طالبان نے کچھ صبر کیا تو وانا سے جنگ سراروغہ تک پھیلا دی گئی۔ جہاں امریکہ نے اشارہ کیا ‘ فوج نے اس جگہ کو میدان جنگ بنا دیا۔ قبائل کو کشت و خون کی آگ میں دھکیل دیا گیا۔ ڈاکٹر عافیہ کے اغواء میں پاکستانی ایجنسیوں کی شرکت جیسے دکھ سکتہ طاری کئے تھے کہ اچانک اسلام آباد لہو میں ڈوب گیا۔ جامعہ حفصہ تباہ و برباد کردی گئی۔ لال مسجد خون سے لال کردی گئی ۔ اب مسجد ہندو تباہ کریں اور جواباً مسلح حکمت عملی اختیار کی جائے تو جہاد کہلائے ۔ ہندو‘ کشمیر‘ منی پورہ‘ بھاگن پورہ اور گجرات وغیرہ میں قتل عام کریں اور جواباً مسلح تحریک چلے تو اسے جہاد کہا جائے لیکن یہ تمام کام پاکستانی فورسز کرے مساجد و مدارس تباہ کردے ۔ عزتیں پامال کرے اور جواباً مسلح تحریک اٹھے تو فساد کہلائے۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
فوج نے ہمیں افغانستان اور کشمیر کے محاذ سے کھینچ کر پاکستان کے محاذ پر لاکھڑا کیا۔ مجرم فوج اور حکومت ہے ۔ جنگ کا آغاز حکومت اور فوج نے کیا۔ دفاع کا شرعی حق ہم محفوظ رکھتے ہیں ۔ کسی عالم دین سے پوچھ لیجئے ۔ عزت‘ جان‘ مال اور ایمان کے دفاع کو شرعاً جہاد سمجھاجاتا ہے یا نہیں ۔ آج فوج امریکہ کے کرائے کی فوج کا کردار ختم کرے۔ خالص مسلمان فوج بن جائے۔ اہل اسلام پر بندوقیں تاننے کی بجائے 1971ء کا بدلہ لینے کی تیاری کرے۔ کشمیر کے لئے لڑے۔ تو ہماری صلاحیتیں اور قوتیں بھی اسلامی ملک کے لئے وقف ہوجائیں گی ۔ آپ نے لکھا ہے کہ بشیر بلور آخری نشانہ تھے اور نہ اے این پی پر معاملہ رکے گا۔ آپ ہی وضاحت فرمائیں ۔ کیا پڑی تھی اے این پی کو کہ اس نے فوج کی غلط پالیسی پر خود کو لاکھڑا کیا۔ فوج کابل سے جنگ کو اسلام آباد کھینچ لائی اور اے این پی اس جنگ کو اسلام آباد سے باچا خان ہاؤس لے آئی ۔ شاید اے این پی کو ڈالروں کی چمک نے کچھ سوچنے نہ دیا۔ جرنیلوں کے پاس ڈالروں کی بھرمار سے اے این پی کی نظریں چندھیانے لگیں ۔ اب اے این پی گلے لگے ڈھول کو پیٹنے پر مجبور ہے ۔ ایسا ہی کردار ایم کیوایم کا بھی ہے۔ فوج پالیسیاں بدلتی ہے یا نہیں ‘ اے این پی اپنی پالیسی ازسرنو مرتب کرے ۔ بات چیت کا راستہ اختیار کرے ۔ اپنی غلط پالیسیوں پر معافی مانگے تو طالبان عام معافی کے بارے میں سو چ سکتے ہیں ۔ آپ کی تحریر سے یوں لگتا ہے کہ ہم مکمل سیاسی سیٹ اپ کے پیچھے پڑے ہیں تو ایسا ہرگز نہیں ۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام پر ہونے والے حملوں میں اندرون تحریک اضطراب اور پریشانی نے جنم لیا۔ کبھی تحریک نے یہ نہیں کہا کہ یہ حملے ہم نے کئے اور نہ ہی ان حملوں کی تحسین کی ۔ پھر ان حملوں کو تحریک سے جوڑنا بہرحال مناسب نہیں۔ آئندہ بھی تحریک کسی ایسے منصوبے پر غور نہیں کررہی ۔ البتہ جمعیت اور جماعت کو اپنے بیانات کا محاسبہ کرنا ہوگا کیونکہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے بارے میں تحریک سکوت اختیار کئے ہوئے ہے ۔ اگر آئندہ سیٹ اپ میں یہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک فوج کے ہاتھ میں چھڑی بنتے ہیں تو پھر میدان اور گھوڑا حاضر ہے ۔ اگر یہ جماعتیں ملک دشمن اور اسلام دشمن پالیسیوں سے خود کو جدا کردیتی ہیں جیسا کہ ہم توقع کرسکتے ہیں تو ہمارے آئندہ کے میدان کے انتخاب میں غیرسنجیدگی نظر نہیں آئے گی ۔
صافی صاحب ! یہ ہمارا ملک ہے ۔ اس کے گلی بازاروں بلکہ جنگلوں اور بیابانوں سے بھی ہمیں محبت ہے مگر اس محبت کی قیمت پر ہم اصول دین کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمارے اکثر صحافی اور اینکر پرسن یک طرفہ ٹریفک چلاتے ہیں کیونکہ دوسری طرف انہیں پمرا کی دیوار کا سامنا ہے ۔ ہمارے لئے تو وہ ”یہ لوگ مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے بھی حقدار نہیں“ جیسے جملوں کا استعمال کریں ۔ سیاستدان بھی (ہمارے لئے) خونخوار‘ بھیڑیے اور درندے جیسے الفاظ چنیں تو پھر ہم سے بھی پھولوں کی توقع نہیں رکھنی چاہئیے۔ ہماری کسی سے ذاتی لڑائی نہیں (بلکہ) نظریاتی ہے ۔ گویا ان کے لئے اس نفرت کا سبب ہمارا محبوب و مقدس جہادی نظریہ ہے ۔ یہ نظریہ ہمیں جان و مال سے بھی زیادہ محبوب ہے ۔ رہا یہ مسئلہ کہ کوئی نیا آپریشن معاملات حل کرسکتا ہے تو معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ امریکہ 42 ممالک کے ساتھ مل کر جنگ نہ جیت سکا تو دوسروں کی جنگ پاکستانی فوج کیا جیت سکے گی ۔ اب ہمارے لئے جہاد جاری رکھنے کے واسطے (وزیرستان کے علاوہ) کئی بیس کیمپ بن چکے ہیں ۔ کسی ایک بیس کے خلاف آپریشن سے مسئلہ مزید بگڑے گا ۔ وہ لوگ جو اب تک پلٹ کر حملہ آور نہیں ہونا چاہتے وہ بھی پوری قوت سے پلٹ پڑیں گے ۔ کونڑ اور نورستان کو رونے والے خوست‘ جلال آباد اور پکتیا جیسے نئے محاذوں سے بھی آشنا ہونے لگیں گے ۔ جنگ یا امن ‘ فوج اور حکومت خود فیصلہ کرے ۔ ہم ہر میدان کے لئے تیار ہیں ۔ آپ کے ذریعے حکومت‘ فوج اورپاکستان کے ہمدردوں کوجنگ سے نکلنے کے لئے چند تجاویز دیتے ہیں ۔
(1)اسلام سے ہم آہنگ آزاد خارجہ پالیسی
(2)افغان جنگ میں شراکت داری اور پاکستان میں جنگی پالیسی کا خاتمہ
(3)ملک میں اسلام سے متصادم قوانین کی منسوخی اور قرآن و سنت کی روشنی میں آئین پاکستان کا اجراء و نفاذ
اس کے علاوہ چند انتظامی اور قدرے قابل اعتماد اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جو دونوں فریق آسانی کے ساتھ طے کرسکتے ہیں ۔ امید ہے میری گزارشات سے آپ اتفاق فرمائیں گے ۔
والسلام مع الاکرام …آپ کا بھائی …عصمت اللہ معاویہ …تحریک طالبان پنجاب ۔26-12-2012“
اس خط میں جن خیالات اور مطالبات کا اظہار کیا گیا ہے ‘ مجموعی طور پر وہ نئے نہیں بلکہ تحریک طالبان پاکستان کے دیرینہ خیالات اور مطالبات ہیں لیکن اس کے اظہار کے لئے جس وقت، جس طریقے، جس انداز اور جس لہجے کا انتخاب کیا گیا ہے، اس کی بنا پر میں اسے تازہ ہوا کے جھونکے سے تعبیر کرتا ہوں۔ تبھی تو میں اسے طالبان کی طرف سے جنگ بندی اور مفاہمت کے لئے مشروط پیشکش سے تعبیر کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اگر سیاسی و عسکری قیادت دانشمندی کا راستہ اپنا کر مناسب افراد کے ذریعے مناسب طریقے سے مذاکرات کا آغاز کرے تو بہتر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ مذاکرات کیوں ضروری ہیں، کیسے ہوسکتے ہیں، کس طریقے سے ہوسکتے ہیں، کن کے ذریعے ہوسکتے ہیں اور ان کی کامیابی کے امکانات کیا ہیں؟ زندگی رہی تو اگلے کالم میں ان سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
تازہ ترین