• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ اتنا آسان نہیں تھا،ایک ایسی ٹیم کے لئے جس نے اوپر تلے تین ٹیسٹ ہارے ہوں اور مختصر عرصے میں 2 ٹیسٹ سیریز کی شکست کا سامنا کیاہو،کپتان،کوچنگ اسٹاف سمیت تمام کھلاڑیوں کا ٹیمپرامنٹ کمزور پڑ چکا ہو،جنوبی افریقا کے خلاف 5 ایک روزہ میچوں کی سیریز کے پہلے میچ میں کامیابی اتنی آسان نہیں تھیجہاں تک تعلق ہے کہ ایک روزہ کرکٹ کےبڑے کھلاڑی ٹیم کو جوائن کرگئے تھے مگر انہوں نے بھی جنوبی افریقی کنڈیشن میں اتنی پریکٹس نہیں کی تھی جتنی دوسرے کھلاڑی حاصل کرچکے تھے،اس لئےپہلے میچ میں کامیابی خاصی مشکل تھی،خاص کر جب ٹاس بھی ہارچکے ہوں اور اسکوربورڈ پر 266 رنزکا ہدف بھی سیٹ ہوچکا ہو، اسی لئے ڈوپلیسی الیون نےہاشم آملہ کی سنچری کو انجوائے کرتے ہوئے فیلڈ میں قدم رکھا تو وہ بہت مطمئن تھے،ایسے میں امام الحق،بابر اعظم اور محمد حفیظ نے ذمہ دارانہ اننگز کھیل کر پاکستانی فتح کو یقینی بنایا،شعیب ملک اگرچہ 12 رنزکرسکے، حفیظ اور ملک کو ورلڈ کپ کےاختتام تک یہی رول پلے کرنا ہوگا، غلطیوں سے اجتناب اور اننگ کو طویل کرنے کےثمرات یہی ہوتے ہیں کہ آملہ سنچری کریں تو امام 86،بابر 49 اور حفیظ 71 رنز بناکر بھر پور جواب دیں،ویسے پورٹ الزبتھ کا یہ میدان پاکستان کے لئے اس مرتبہ بھی ایک روزہ کرکٹ کے حوالے سے بہتر رہا،پاکستان یہاں کبھی ایک روزہ میچ نہیں ہارا ہے،یہ چوتھا میچ تھا اور تیسری فتح تھی،یہاں کی وکٹ ،کنڈیشنز سلو اور ساز گار ہوتی ہیں،لیکن ٹیم کو یہی کارکردگی ہرماحول میں دکھانے کی عادت ڈالنی ہوگی،اگلا معرکہ آج منگل کو ڈربن میں ہے ،جنوبی افریقی کپتان ذہنی طور پر پاکستان کی ایک روزہ ٹیم کو اپنی ٹیم سے زیادہ بہتر مانتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرچکے ہیں،مائنڈ سیٹ کی یہ لاشعوری کمزوری یقینی طور پر گرین شرٹس کوفائدہ دے گی،بہت سے لوگوں کے پہلے میچ کے لئے ٹیم سلیکشن کمزور تھی،وکٹ کا رویہ سامنے اور نتیجہ تاریخ بن گیا،سلو پچ پر اسپنرز کی زیادہ سے زیادہ بہتات مفید ہی ثابت ہوئی،جنوبی افریقا کے لئے یہ بوجھ اکیلے عمران طاہر نے اٹھایا،اس کے علاوہ باقی پیسرز تھے وکٹ میں مدد نہ ہونے کے باعث وہ ناکام رہے،ایسے میں عامر یا شاہین کا ہونا بھی اتنا ہی غیر مفید رہتا۔پاکستانی اسپنرز نے 22 اوورز میں 108 رنزدیئے،یہ رنزکو روکنے کے لئے بہترین اندازہے،ٹیسٹ سیریز میں پاکستانیوں پر بجلی بننے والے اولیویئر کی طبعیت بھی ٹھیک صاف ہوئی ،پورے میچ کے سب سے زیادہ مہنگے بولر ثابت ہوئے 10اوورز میں 73 رنز بنواگئے،سرفراز الیون کی اعتماد کی بحالی کے لئے یہ فتح اہم ثابت ہوئی،اسکے لئے ضروری ہوگا کہ آج ہونے والے دوسرے میچ میں زیادہ خود اعتمادی سے میدان میں اتراجائے،سلیکٹرز بہت قریب سے یہ سیریز دیکھ رہے ہیں،کمبی نیشن کی بہتری کی گنجائش اب بھی موجود ہے،ڈربن میں بھی پاکستان کا حریف ٹیم کے خلاف سابقہ ریکارڈ قابل قدر ہے،کنگز میڈ میں گرین شرٹس نے 6 ون ڈے میچوں میں سے 4 میں پروٹیز کو ہرایا ہے،گرائونڈ کے راس ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ آخری میچ میں 6 سال قبل 21 مارچ کو مصباح الیون نے 234 رنز پر میزبان ٹیم کو روکا تھا اور 3 وکٹ سے کامیابی اپنے نام کی تھی،ویسے اس میچ میں محمد حفیظ صفر پر آئوٹ ہوئے تھے،6 میچوں کی ترتیب دیکھی جائے تو 1993 اور 1994 میں پاکستان جیتا،1998 اور 2002 میں مسلسل 2 میچ ہارا اور پھر 2007 اور 2013 میں مسلسل 2 فوحات کو گلے لگایا،یہاں پاکستان کا ہائی اسکور 351 اور معمولی اسکور 140 ہے،میزبان ٹیم نے یہاں مجموعی طور پر 36 میچوں میں سے 20 کو گلے لگایا ہے۔

دونوں ٹیمیں سیریز کے تیسرے میچ میں سپر سپورٹ پارک سنچورین میں جمعہ کو مدمقابل ہونگی ،قدرے بائونسی اور فاسٹ وکٹ پر پاکستان کا ریکارڈ یہاں اچھا نہیں ہے تو زیادہ برا بھی نہیں،5 میچوں میں سے اسے 3 میں شکست کا سامنا رہا ہے 2 میں فتوحات بھی ملی ہیں ،2013میں کھیلے گئے 2 میچوں میں سے سال کا ابتدائی میچ جیتا تھا تو آخر میں شکست ہوئی تھی ،چوتھے میچ میں اتوار 27 جنوری کو جوہانسبرگ میں میدان سجے گا ،سب سے تشویشناک ریکارڈ یہاں ہے،گرین شرٹس 4 میچ کھیل کر تاحال اس قلعے کو فتح نہیں کرسکے ہیں ،1994 میں یہاں پہلا میچ کھیلنے والی پاکستانی ٹیم 25 سال سے فتح کی تلاش میں ہے ۔سیریز کا آخری میچ 30 جنوری کو کیپ ٹائون میں ہوگا،قومی ٹیم کو ورلڈ کپ کی تیاری کے کامیاب سفر کے لئے یہ سیریز جیتنا ضروری ہے،اگلی سیریز آسٹریلیا کے خلاف ہوگی،اسکے بعد ورلڈ کے قریب چند میچ ہونگے ،2 سیریز کی فتح ٹیم کو فیورٹ امیدواروں میں شمار کرے گی،حریف ٹیموں پر بھی دبائو ہوگا۔امام الحق،فخر زمان،بابر اعظم،محمد حفیظ،شعیب ملک،سرفراز احمد تک پاکستانی ون ڈے ٹیم کا ورلڈ کپ تک یہ کمبی نیشن واضح ہے،شاداب خان اور حسن علی بھی ساتھ ہونگے،محمد عامر،عثمان شنواری،عماد وسیم ،شاہین آفریدی ودیگر آگے پیچھے ہوتے رہیں گے،چیف سلیکٹر انضمام الحق کی یہ فکر تو بجا ہے کہ ورلڈ کپ تک کوئی کھلاڑی ان فٹ نہ ہوجائے،سوال یہ ہے کہ کیا کوئی متبادل پلیئرز کا دستہ اور انکی ٹریننگ و پریکٹس بھی کسی شیڈول میں شامل ہے،دائیں ہاتھ کے تیز ترین فاسٹ بولر اور دائیں ہی ہاتھ کے باصلاحیت اوپننگ بیٹسمین کی تلاش بھی جاری ہے یا نہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین