• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہتے ہیں کہ سیاست ہو، کھیل ہو یا جنگ کا میدان، دفاعی پوزیشن کوئی بہتر پوزیشن نہیں ہوتی لیکن شیخ الاسلام علامہ پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری نے مینارِ پاکستان پر اپنے خطاب کا آغاز ہی دفاعی پوزیشن سے کیا۔ وہ ”سیاست نہیں، ریاست بچاؤ“ کے نعرے کے ساتھ پاکستان واپس آئے تھے۔ سیاست اور ریاست کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کرکے، سیاست سے اظہار بے زاری بہت سوں کے لئے بجا طورپر تشویش کا باعث تھا۔ وہ جو کہتے ہیں، دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ یا سانپ کا کاٹا رسی سے بھی ڈرتا ہے۔ تو کچھ یہی کیفیت یہاں بھی تھی۔ ماضی میں آئین اور جمہوریت پر شب خون مارنے والے بھی کچھ اسی قسم کا ”جواز“ پیش کرتے رہے تھے اور آٹھ آٹھ، دس دس سال گزار کر رخصت ہوئے تو ریاست پہلے سے کہیں زیادہ نحیف و نزار تھی بلکہ ایسے ہی ایک مسیحا کے ہاتھوں تو قائداعظم کا پاکستان دو ٹکڑے ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر صاحب 2004ء میں قومی اسمبلی کی رکنیت پر چار حرف بھیج کر کینیڈا جا بسے تھے۔ یہ ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کا دور تھا۔ کینیڈا کے پرسکون ماحول میں بیٹھ کر انہوں نے خودکش حملوں اور دہشت گردی کے خلاف 400 سے زائد صفحات پر مشتمل فتویٰ تیار کیا۔ انگریزی سمیت مختلف زبانوں میں جس کے تراجم بلامبالغہ لاکھوں کی تعداد میں تقسیم ہوئے۔ اس کا پیش لفظ جارج ٹاؤن یونیورسٹی واشنگٹن کے پروفیسر جان ایسپوزیٹو نے لکھا تھا۔ 2005ء میں ڈاکٹر صاحب کو کینیڈا کی شہریت مل گئی۔ اب وہ زیادہ سکون اور اطمینان کے ساتھ مختلف موضوعات پر اسلامی کتب تحریر فرما رہے تھے۔ اس دوران امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک ان کی اسلامی سرگرمیوں کا محور رہے۔ وہ پاکستان آئے بھی تو پردیسیوں کی طرح۔ 12 ربیع الاول کو مینارِپاکستان پر میلادالنبی کے جلسے یا رمضان کے آخری عشرے میں لاہور کے بغداد ٹاؤن میں شہر اعتکاف سے ان کا خطاب ٹیلی فون پر ہوتا (الطاف بھائی کے ساتھ ایک اور مماثلت)۔ اس دوران ان کی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک لاپتہ رہی۔ لگتا تھا ڈاکٹر صاحب کے لئے بھی یہ بھولی بسری یاد بن چکی ہے۔ شیخ الاسلام کے خطاب کے ساتھ اب وہ عالمی لیڈر تھے۔ پاکستان کی سیاست ان کے مقام و مرتبہ سے فرو تر تھی۔ 2008ء کے عام انتخابات کے بعد پاکستان میں منتخب ادارے جیسے تیسے اپنے پانچ سال پورے کررہے تھے اور اب نئے انتخابات دیوار پر موٹے موٹے الفاظ میں لکھی ہوئی سامنے کی حقیقت تھے۔ ان پانچ برسوں میں گورننس کی جو حالت رہی، عوام کے مسائل میں جو اضافہ ہوا، معیشت جان کنی کی جس کیفیت سے دو چار ہوئی، دہشت گردی کے آسیب نے جو وسعت اختیار کی، بلوچستان کا مسئلہ جس طرح سنگین تر ہوا، کراچی میں خرابی احوال نے جو شدت اختیار کی اور کرپشن جس انتہا کو پہنچی، یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن اس تمام تر شر کے باوجود خیر کا یہ پہلو بھی تھا کہ پارلیمینٹ نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے حقیقی پارلیمانی نظام کا اہتمام کر دیا تھا۔ سترہویں ترمیم کے صدارتی تجاوزات ختم کردیئے گئے، صوبائی خودمختاری کے دیرینہ مطالبات بھی تسلیم ہوگئے تھے (چھوٹے صوبوں کے قوم پرست حیران تھے کہ وفاق اس حد تک وسیع الظرفی کا مظاہرہ بھی کر سکتا ہے) اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر میں انتظامیہ کا اثر و رسوخ ختم ہوگیا تھا اب یہ کام چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن اور حکومت اور حزب اختلاف پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کے سپرد تھا۔ بیسویں ترمیم نے اپوزیشن کے اتفاق رائے سے آزاد و خودمختار الیکشن کمیشن اور وفاق اور صوبوں میں حقیقی معنوں میں غیرجانبدار حکومتوں کی زیرنگرانی صاف شفاف اور منصفانہ انتخابات کی آئینی ضمانت فراہم کر دی تھی۔ اب ملک میں آزاد عدلیہ بھی ہے، چوکس میڈیا اور سرگرم و مستعد سول سوسائٹی بھی۔ اب عوام کی نظریں عام انتخابات پر تھیں ایسے میں ”سیاست نہیں، ریاست بچاؤ“ کے نعرے کے ساتھ شیخ الاسلام کی آمد پر اندیشہ ہائے دور دراز کا امڈ آنا فطری تھا۔ پاکستان ایک سیاسی قائد کی زیرقیادت، ایک سیاسی جماعت کی سیاسی جدوجہد کے ذریعے وجود میں آیا تھا سیاسی عمل ہی مختلف قومیتوں پر مشتمل اس ملک میں قومی اتحاد و یکجہتی کا ذریعہ ہے۔ سیاسی و جمہوری عمل سے انحراف کا خمیازہ قوم سقوط ڈھاکہ کی صورت میں بھگت چکی ہے۔ خواجہ رفیق شہید کے 40 ویں یوم شہادت پر نوازشریف کے یہ الفاظ دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف تھے کہ سیاست کو پاکستان سے جدا کرنا روح کو جسم سے الگ کرنے کے مترادف ہے۔ اور تو اور، شیخ الاسلام کے ہم مسلک سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری اسے ڈالروں کے ساتھ باہر سے آنے والا ایجنڈا قرار دے رہے تھے۔ چنانچہ شیخ الاسلام نے مینارپاکستان اپنے خطاب کا آغاز ہی دفاعی پوزیشن سے کیا۔ خدا اور رسول ا کے نام کے ساتھ حلف اٹھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی غیر ملک یا غیرملکی ادارے کی آشیرباد کے ساتھ نہیں آئے، انہیں پاکستان کی کسی خفیہ ایجنسی کی تائید حاصل ہے، نہ وہ فوجی مداخلت کی راہ ہموار کرنے آئے ہیں۔ ”گلے سڑے نظام“ کے خاتمے اور انتخابی اصلاحات کے لئے انہوں نے 10 جنوری تک مہلت دی بصورت دیگر 14 جنوری کو اسلام آباد میں 40 لاکھ کی عوامی پارلیمنٹ کے انعقاد کا اعلان کیا۔ کیا گلے سڑے نظام کا خاتمہ اور ڈاکٹر صاحب کے انقلابی ایجنڈے کی تکمیل صرف 18 دن میں ممکن تھی؟ دو روز بعد انہوں نے وضاحت فرمائی کہ وہ موجودہ پارلیمنٹ/حکومت سے اصلاحات کا مطالبہ نہیں کررہے بلکہ 10 جنوری تک موجودہ اسمبلیوں کے خاتمے اور نگران حکومت کے قیام کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اصلاحات کا کام انہوں نے نگران حکومت کے گلے میں ڈال دیا تھا۔ مینار پاکستان کے جلسے میں ان کا کہنا تھا، الیکشن ”جب بھی“ ہوں ان اصلاحات کے بعد ہوں۔ وہ آئین کے آرٹیکل 254 کا حوالہ لائے اور اس سے الیکشن کے غیرمعینہ التوا کی گنجائش نکال لی۔ اب اپنے وضاحتی انٹرویوز میں ان کا کہنا ہے کہ نگران حکومت صرف ایک ماہ میں یہ انتخابی اصلاحات کرسکتی ہے (مگر کیسے؟ اور پھر نگران حکومت کا مینڈیٹ تو مقررہ مدت میں صرف صاف شفاف اور آزادانہ و منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے) ”یہاں پگڑی اچھلتی ہے، اسے مے خانہ کہتے ہیں“ سیاست کے مے خانے میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ان دنوں مفتی اعظم فلسطین والی ٹوپی پہنتے ہیں۔ وہ سیاست میں آئے ہیں تو ناقدین گڑے مردے اکھاڑنے لگے ہیں۔ قانون توہین رسالت کے حوالے سے ان کے تضادات کی نشاندہی کی جارہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اسے سیاق و سباق سے ہٹ کر قرار دیتے ہیں اور اس کے لئے لاہور میں اپنی 14گھنٹے طویل تقریر سننے کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ اس کی DVD مفت فراہم کرنے کو تیار ہیں۔ وہ انتخابی امیدواروں کے لئے آرٹیکل 62، 63 کی پابندی پر اصرار کرتے ہیں تو مخالفین 21 اپریل 1990ء کو ڈاکٹر صاحب پر مبینہ قاتلانہ حملے پر جسٹس اختر حسن پر مشتمل تحقیقاتی ٹریبونل کے فیصلے کو لے بیٹھتے ہیں۔ آئین کے تحت دوہری شہریت کا حامل کوئی شخص پارلیمنٹ/صوبائی اسمبلی کا ممبر نہیں بن سکتا۔ ڈاکٹر صاحب الیکشن لڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن دہری شہریت کے ساتھ قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے پر مصر ہیں۔ وہ 23 دسمبر کے جلسے پر کروڑوں روپے کے اخراجات تسلیم کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اس طرح کے سو مزید جلسے بھی کر سکتے ہیں۔ اخراجات کے لئے وہ دنیا کے 90 ممالک میں اپنے لاکھوں وابستگان کے جذبہ ایثار کا حوالہ دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی یہ انکشاف بھی کہ پاکستان میں ان کے عقیدتمندوں نے اس جلسے کے لئے اپنے گھر، پلاٹ، زیور، موٹرسائیکل اور کار تک فروخت کر ڈالی۔ زیور، کار یا پلاٹ تو عیاشی سہی لیکن گھر اور موٹرسائیکل تو اب زندگی کی بنیادی ضروریات ہیں۔ ایک سیاسی جلسے کے لئے انہیں فروخت کر دینے کا شرعی یا اخلاقی جواز؟ چیف الیکشن کمیشن نے آرمی چیف سے ملاقات کے بعد قوم کو انتخابات کے بروقت اور منصفانہ انعقاد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ جناب زرداری نے بھی گزشتہ روز محترمہ کی پانچویں برسی پر اسی کا اعادہ کیا۔ بیسویں ترمیم کے مطابق آزاد و با اختیار الیکشن کمیشن کا تقرر عمل میں آچکا جس پر پارلیمنٹ سے باہر کی جماعتیں بھی اظہار اعتماد کررہی ہیں۔ اب ایسی نگران حکومت کی توقع بے جا نہیں جس پر سب کا اعتماد اور اتفاق ہو تو ڈاکٹر صاحب اپنے ایجنڈے کے لئے الیکشن کو ذریعہ کیوں نہیں بناتے؟ ان کی پاکستان عوامی تحریک الیکشن کمیشن میں اب بھی رجسٹرڈ ہے۔ باقی رہی کینیڈا کی شہریت تو خود ڈاکٹر صاحب کے بقول وہ پاکستان کے لئے ایسی ہزاروں شہریتیں قربان کر سکتے ہیں۔
تازہ ترین