• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب میرا بیٹا بہت چھوٹا تھا اور میں اس سے کوئی کام کرنے کے لئے کہتا تھا تو اس کا مطالبہ ہوتا تھا کہ ـ’’میجک ورڈ‘‘ بولئے تو کام ہوگا۔ اس سے مراد یہ ہوتی تھی کہ اگر پلیز کہہ کے کام کروائیں گے تو ہو جائے گا وگرنہ نہیں۔ اب وہ بڑا ہو چکا ہے قانون میں پی ایچ ڈی کر چکا ہے لیکن اس کا بچپن کا مطالبہ نہیں بدلا۔ چند ہفتے پیشتر اسی طرح کے کسی معاملے میں اس کے ساتھ تنازع میں بات قطع تعلقی تک پہنچ گئی۔ ہوا یہ کہ اس نے کسی کام کے سلسلے میں میری مدد کی اور اس کا کہنا تھا کہ میں نے اس کا مناسب انداز میں شکریہ ادا نہیں کیا۔ میرا موقف تھا کہ ہر معاملے میں بیٹے کے اس طرح کے مطالبات نا شکرا پن ہے۔ مطلب میں نے اسے پالا پوسا، پڑھایا لکھایا اور اس کی سوئی اب بھی ’تھینک یوـ ‘ پر اٹکی ہوئی ہے۔آپ میں سے بہت سے لوگ میری تائید کریں گے اور میرے بیٹے کو نافرمان گردانیں گے لیکن ایسا ہے نہیں ۔ مجھے بھی تھوڑی دیر میں سمجھ آگئی کہ وہ جس جہان میں پلا بڑھا ہے اس کے تقاضے میری ماضی کی دنیا سے بالکل مختلف ہیں اور مجھے ایک ’تھینک یو‘ کے بدلے بیٹا نہیں کھونا چاہئے۔

ذاتی سطح پر امریکی بہت ہمدرد لوگ ہیں۔ ضرورت مند کے لئے دروازہ کھولنا یا بس اور ٹرین میں اپنی سیٹ دے دینا بہت عام سی بات ہے۔ لیکن اگر وہ اس طرح کی مدد کریں گے تو ان کی توقع ہوگی کہ آپ فوری طور پر ان کا شکریہ ادا کریں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو وہ شاید خاموشی اختیار کر لیں گے لیکن دل میں آپ کو دنیا کا بد تمیز ترین شخص گردانیں گے۔ ہمارے ماضی کا پس منظر ایسا ہے کہ ہم اگر دل میں ممنون بھی ہوں تو اُس کا اظہار کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ آخر یہ فرق کیوں؟ کیا امریکی یا میرا بیٹا کم ظرف ہیں جو سارا کچھ ’پلیز‘ اور ’شکریے‘ کے لئے کرتے ہیں؟ اگر تھوڑی سی گہرائی میں جائیں تو معاملہ کچھ پیچیدہ ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ قبائلی معاشرے میں فرد کی پہچان اپنے قبیلے سے ہوتی ہے: آپ کے افعال و اعمال پورے قبیلے کی عزت افزائی یا بد نامی کا باعث ہوتے ہیں۔ قبیلے کے اندر جو کام ایک دوسرے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ ان کا کیا جانا ایک فریضہ ہے جس کے لئے کسی کو ممنون احسان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ جاگیر داری معاشرے میں بھی فرد کی پہچان اس کے گاؤں، برادری اور خاندان سے ہوتی ہے۔ ان اکائیوں میں ایک دوسرے کے لئے کچھ کرنا فریضے میں شامل ہے جس کے لئے ’پلیز‘ اور ’تھینک یو‘ کہنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ ان معاشروں میں والدین اور اولاد کا تعلق بھی اسی نہج پر مرتب ہوتا ہے۔ یعنی اگر والدین اولاد کے لئے کچھ کریں یا اولاد والدین کے لئے کوئی خدمت انجام دے تو یہ سارا کچھ فرائض کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن صنعتی معاشروں کے ماحول میں معاملات یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں اور فرد کی پہچان اس کی ذات کے علاوہ کسی اور اکائی سے متعین نہیں ہوتی۔ اس لئے کسی ایک فرد کا دوسرے کی مدد کرنا اس کے فرائض میں شامل نہیں ہے بلکہ یہ ایک ذاتی بھلائی کا کام ہے جس کے لئے شکر گزار ہونا تہذیب کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

اس تصور کو مزید آسانی سے سمجھنے کے لئے ہم ماضی کی طرف لوٹتے ہیں۔ ہمارے بچپن میں اگر کسی اجنبی کے سامنے جانے کا اتفاق ہوتا تھا تو اس کا پہلا سوال ہوتا تھا ’’کیہدا ایں‘‘ (کس کے ہو) یعنی تم کس کے بیٹے ہو یا کس کی اولاد میں سے ہو۔ اگر کسی اجنبی سے آمنا سامنا ہو جائے تو اس کے نام کی بجائے اس کے گاؤں، ذات یا برادری کے بارے میں پوچھا جاتا تھا۔ گویا کہ کسی کا انفرادی نام یا اس کی خصوصیات ثانوی حیثیت سے بھی کمتر ہوتی تھیں۔ اس تاریخی صورت حال کا پس منظر یہ تھا کہ پیداواری عمل میں پورا خاندان یا پورا قبیلہ ایک اکائی کے طور پر کام کرتا تھا لہٰذا ذاتی پہچان کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔لیکن اب مشینی پیداوار اور صنعتی معاشرے کے قیام نے پرانی اکائیوں کو نیست و نابود کردیا ہے۔ اب آپ کسی سے یہ پوچھنے کی جرأت نہیں کر سکتے کہ ’’کیہدا ایں‘‘ مزید برآں یہ بد تمیزی کےزُمرے میں تصور کیا جائے گا۔

پرانی دنیا کی ایک اور جھلک دیکھئے۔ جب خاندان مشترکہ زندگی گزارتے تھے تو میاں بیوی کے ایک چارپائی پر بیٹھنے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ یہاں تک کہ گھر کے بزرگوں کے سامنے اپنے ہی بچے سے لاڈ پیار جتانا بد تمیزی شمار ہوتی تھی۔ میرے والد صاحب کافی کھلے دماغ کے تھے لیکن ایک مرتبہ جب میری بھابھی نے ان کے سامنے اپنے بیٹے سے لاڈ پیار کا اظہار کیا تو وہ بہت خفا ہو گئے تھے۔ اب یہ باتیں ۔’معقولیت‘ کے دائرے سے خارج سمجھی جائیں گی لیکن ماضی میں سماجی اخلاق اور منطقی اعمال کا پیمانہ بالکل مختلف تھا ۔ اس ماحول میں ’پلیز‘ اور ’تھینک یو‘ کی نہ کوئی گنجائش تھی اور نہ ہی ضرورت۔ اب جس معاشرے کی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں اس کا مکمل انحصار انفرادیت پر ہے جس سے تمام تہذیبی معیار نئے سرے سے مرتب ہوں گے۔

پاکستان صنعتی معاشرے کے قیام کے ابتدائی مراحل سے گزر رہا ہے۔ ابھی تک بہت سی پرانی روایات بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں لیکن وہ وقت کے ساتھ مٹتی جائیں گی ۔ اب پاکستان میں بھی انفرادیت پر مبنی سماجی اقدار جنم لے رہی ہیں۔ تبدیلی اور ارتقاکا یہ مرحلہ کافی تکلیف دہ بھی ہے کیونکہ جو تھا وہ مٹ رہا ہے اور جو ہونا ہے وہ مکمل طور پر سامنے نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ذہنی خلفشار مختلف طرح کے بد نما رنگوں میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ یہ صرف وقت کی بات ہے کہ پاکستان میں بھی ’پلیز‘ اور ’تھینک یو‘ سماجی ہی نہیں ذاتی تعلقات کے لئے بھی لازم ہو جائیں گے۔ میرا بیٹا جس امریکی طرز عمل کا اظہار کر رہا ہے اس کا تعلق کسی علاقے سے نہیں بلکہ سماج کی پیداواری ہیئت ترکیبی پر ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین