• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افسر ایک عجیب و غریب مخلوق ہے۔ لیکن اس کی اعلیٰ قسمیں صرف دو ہیں۔ نمبر ایک سی ایس ایس والے اور نمبر دو پی سی ایس والے! میرے دوستوں میں یہ دونوں قسم کے افسر شامل ہیں۔ان میں سے جومیرے دوست نہیں ہیں یا جن سے میرا تعارف نہیں ہے میں انہیں بھی ایک نظرمیں پہچان لیتا ہوں کہ ان میں سے سی ایس پی کون ہے اور پی سی ایس کون؟ پی سی ایس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اسے اس کے صوبے میں بھی عموماً کھڈے لائن لگایاجاتا ہے چنانچہ اس کے چہرے پر مظلومیت کے آثارہوتے ہیں جبکہ سی ایس پی کے چہرے پر اِس طرح کے یا ”اُسترا“ کے کوئی آثار نہیں ہوتے ۔ پی سی ایس افسر کے دفترمیں جائیں تواس نے اپنی کرسی پرتولیہ پھیلایا ہوتاہے جبکہ سی ایس پی افسربھی صفائی پسند ہوتے ہیں لیکن ان کے چہرے کے تاثرات کی طرح ان کے صفائی کے آلات کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا!سی ایس پی افسر چائے پلاتا ہے ، وعدہ کرتاہے، کام نہیں کرتا۔ پی سی ایس افسر چائے پلائے نہ پلائے کام کردیتا ہے۔ سی ایس پی اورپی سی ایس افسروں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ دونوں کے چند مخصوص دوست ہوتے ہیں اور دونوں مصاحبین بھی پالتے ہیں البتہ پی سی ایس افسرمصاحبین کی زیادہ قدر افزائی کرتے ہیں حتیٰ کہ اگر وہ اپنے ضلع یا تحصیل میں مشاعرہ کرائیں تو ان کا ایک ”گروپ “ عموماً شعراء کی بجائے مصاحبین کو مدعو کرتاہے۔ اس کے برعکس سی ایس پی افسر (اگر کبھی) مشاعرہ کرائیں تو ان میں سے بعض افسر شعراء کو بھی مصاحبین میں ہی شامل سمجھتے ہیں۔ سی ایس پی افسر جب ریٹائرڈ ہوتا ہے تو بہت اداس رہنے لگتا ہے۔ پی سی ایس افسراداس نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی سروس کے دوران اداس رہنے کا عادی ہوچکا ہوتاہے۔ میرے نزدیک افسروں کی یہ دونوں قسمیں بہت مظلوم ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر بظاہر اپنے علاقے کا بادشاہ ہوتا ہے لیکن جب ڈپٹی کمشنر دورے پر آتا ہے تو اسسٹنٹ کمشنر کو کورنش بجا لانے والے اسے کہنیاں مارتے ہوئے ڈپٹی کمشنر تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کمشنر دورے پر آئے توڈپٹی کمشنر کو کہنیاں پڑتی ہیں۔ چیف سیکرٹری کے دورے کے موقع پر کمشنر صاحب کو لوگ کہنیوں سے پرے دھکیلتے ہوئے چیف سیکرٹری تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔وزیراعلیٰ کی آمد پر چیف سیکرٹری کے نصیب میں کہنیاں لکھی ہوتی ہیں۔
چیف سیکرٹری اورکمشنر عموماً سی ایس پی ہوتے ہیں۔ تاہم آج بھی اگر کوئی پی سی ایس ان مناصب تک پہنچے تووہ خوشی کے مارے میانی صاحب پہنچ جاتا ہے چنانچہ پی سی ایس کا کہنیاں کھانے کا تجربہ سی ایس پی افسر سے قدرے مختلف ہوتاہے۔ ان افسروں کی ”مظلومیت“ کا تعلق حکومت کی تبدیلی سے بھی ہوتا ہے۔ انتہائی قابل اور دیانتدار افسروں پر بھی سابقہ حکومت کے ”وفادار“ہونے کاٹھپہ لگ جاتا ہے چنانچہ ”بلاامتیاز رنگ و نسل ومذہب و ملت“ ان سب کو ”او ایس ڈی“ بنا دیا جاتا ہے اور یہ الف لیلیٰ کے ابو الحسن بن جاتے ہیں جو سویا تو محل میں تھا لیکن جب آنکھ کھلی تو خود کو جھونپڑی میں پاتا ہے۔
افسروں کی ایک کلاس اوربھی ہے جو خود کو کبھی افسر نہیں سمجھتی۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق فنون لطیفہ کے کسی شعبے سے ہوتا ہے چنانچہ ان کی نظروں میں اپنی یا کسی اور کی ”شان سکندری“ جچتی ہی نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنے منصبی فرائض پوری اہلیت اورقابلیت سے انجام دینے کے باوجود ذاتی زندگی درویشوں کی طرح بسر کرتے ہیں اور ان کی دوستیاں اپنی کلاس کے لوگوں سے زیادہ ادیبوں، شاعروں، مصوروں اورفنون لطیفہ سے وابستہ دوسرے شعبوں کے لوگوں سے زیادہ ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں ان کی اپنی کلاس کے لوگ انہیں افسر سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں چنانچہ ان میں سے جو سمجھدار ہوتے ہیں وہ اپنی یہ ”کمزوری“ اپنے کولیگز سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں خصوصاً اپنے باس سے کہ ایسے لوگوں کی اے سی آر میں ”فنون لطیفہ سے وابستگی“ منفی ریمارکس میں شامل ہوتی ہے جس سے پروموشن پر برا اثرا پڑتا ہے!
عام تاثر یہی ہے کہ افسروں میں اکڑ فوں بہت ہوتی ہے۔ وہ انسان کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔ مجموعی طورپر یہ تاثر صحیح ہے مگر پانچوں انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ میں ایسے بہت سے افسروں کو جانتا ہوں جو انسان دوست ہیں اوراگر کوئی انسان دوست نہیں تو اسے راہ ِراست پر لانے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی افسری بتی بنا کر اس کے ہاتھ میں پکڑا دیں تاکہ وہ اس سے کان کی میل صاف کیا کرے اور آپ کی بات سنے، سمجھے اور آپ کی عزت کرنا سیکھ سکے۔ یاد رکھیں اکڑفوں والا افسراندر سے بہت بزدل ہوتاہے۔ اس کا علاج وہی ہے جومیں نے ابھی تجویز کیا ہے۔ خیر یہ بات تو یونہی درمیان میں آگئی۔ میں آپ کو افسروں کی مختلف اقسام کے بارے میں بتا رہا تھا۔ ایک قسم بہت نایاب ہے اور یہ ”میمنے“ افسروں کی ہے۔ شکل و صورت سے یتیم لگتے ہیں، عوامی لباس پہنچتے ہیں خصوصاً چیف کمشنر یا چیف سیکرٹری کے سامنے تو ان کی حالت دیدنی ہوتی ہے ۔ ان کی عاجزی، انکساری اور جی حضوری اپنے عروج پر ہوتی ہے لیکن جب اپنے دفتر میں انپے اختیارات والی کرسی پربیٹھتے ہیں تو ان کی آنکھوں پر سور کی چربی چڑھ جاتی ہے۔ میں نے اس طرح کا ایک افسر محکمہ تعلیم میں دیکھا تھا۔ سکولوں کے ماسٹر اور استانیاں اس کی فرعونیت اور مردم آزاری سے ”رون ہاکے“ نظر آتے تھے۔ اس طرح کے افسروں کا انجام بہت عبرتناک ہوتا ہے۔ جب یہ ریٹائرہوتے ہیں تو لوگوں کے دلوں میں ان کی وہ سب فائلیں جاگ جاتی ہیں جو موصوف نے اپنی مردم آزادی کی وجہ سے دوران ملازمت دبا رکھی تھیں چنانچہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں نہ کوئی سلام کرنے والا ہوتا ہے اور نہ ملنے والا… بلکہ ان کے سابقہ ماتحت ان کا فون بھی نہیں سنتے چنانچہ یہ ریٹائرمنٹ کے بہت کم عرصے کے بعد زندگی سے روٹھ جاتے ہیں! اورہاں افسروں کی ایک قسم اور بھی ہے۔ یہ لوئرکیڈر کے لوگ ہیں اور انہوں نے دوران ملازمت پرائز پوسٹیں انجوائے کی ہوتی ہیں اور وہ سب کام کئے ہوتے ہیں جن پر ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنی خودنوشت یا اپنے کالموں میں تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے دل میں قوم کا دردریٹائرمنٹ کے بعد ہی جاگتا ہے بلکہ دنیاوی خواہشات سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ اپنے صوفیانہ قلم سے دنیا کی بے ثباتی کی کہانیاں تحریر کرتے کرتے وہ خود کو تصوف کے اعلیٰ مقام پر فائز سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ ہر وقت ”میں میں“ کرتے رہتے ہیں کیونکہ ان کے اندرکی بکری ممیانے سے باز نہیں رہ سکتی!
ابھی افسروں کی کچھ اورقسمیں بھی میرے ذہن میں ہیں فی الحال اس پہلی قسط پر اکتفا کریں!
تازہ ترین