• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی پر طنز کے تیر چلا کر اُسے زک پہنچائی جا سکتی ہے لیکن اگر اس ناوک کا کوئی ہدف نہ ہو تو یہ تیر پلٹ کر چلانے والے کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص لبادہ پہن کر اور سر پر تہہ دار پگڑی باندھ کر خود کو شیخ الاسلام قرار دے دے تاہم داتا دربار سے لے کر دریائے راوی تک پھیلاہوا وسیع اور انتہائی منظم جلسہ کرنا کوئی مذاق نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ گفتار کے غازی یہ سوچ رہے ہوں کہ ایسا ہجوم اکٹھا کرنا کون سا مشکل ہے…نہیں جناب، ایسا نہیں ہے اور یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ صرف پیسے کے استعمال سے بھی اتنے لوگ اکٹھے نہیں ہو سکتے ۔
ایک ہجوم میں موجود لوگ ہوسکتا ہے کہ بہت دانا نہ ہوں…․ کم از کم سیاست دان اور میڈیا کے گرو یہی سمجھتے ہیں… لیکن لوگ بہرحال احمق نہیں ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی اجتماع میں شرکت کرنے اُسی وقت جاتے ہیں جب اُن کی مرضی ہو۔ آج کوئی اُن کو ورغلا کرنہیں ل ا سکتا۔ یہ بھی درست ہے کہ صرف ایک پھول کھلنے یا ایک بلبل کے چہکنے سے گلوں میں رنگ نہیں بھرجاتا، اسی طرح ایک واقعہ یا جلسہ… جیسا کہ گزشتہ سال اسی مقام پر عمران خان کی طرف سے کیا جانے والا کامیاب جلسہ …کوئی بڑی انقلابی تبدیلی نہیں لا سکتا۔ یہ قلزمِ ہستی میں ابھرنے والے حباب ہیں جو ایک آن میں نمودار ہوتے اور مٹ جاتے ہیں اور وقت کا بے رحم اور بد لحاظ لمحہ آگے بڑھ جاتا ہے 30 اکتوبر کے جلسے کے بعد خان ِ صاحب کتنے بلند قامت دکھائی دیتے تھے، لیکن آج اُن کا قد کاٹھ وہ نہیں ہے۔
طاقت ، جس کے بغیر سیاست یا کسی چیز کی بھی کوئی وقعت نہیں ہے، کو دوام حاصل نہیں ہے، چنانچہ23 دسمبر کو ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی طرف سے کیے جانے والے عوامی طاقت کے عظیم الشان مظاہرے کا فی الحال کوئی حتمی نتیجہ نکالنا حماقت کے زمرے میں آتا ہے۔ کیا یہ اجتماع ہماری اجتماعی سیاسی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑ جائے گا یا پھر یہ سیاہ بادلوں سے جھلکنے والا بجلی کا کوندا یا کلی کا لمحاتی تبسم ہی ثابت ہو گا؟ ابھی وقت نامی جج نے اس پر اپنا فیصلہ صادر کرنا ہے۔ اب اس جلسے کے مضمرات جو بھی ہوں، ایک بات واضح ہے کہ ہمارے سیاسی افق پر بے یقینی کے بادل پہلے سے ہی چھائے ہوئے تھے اور ذہن میں یہ خدشہ سانپ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھا تھا کہ کیا انتخابات وقت پر ہوں گے یا نہیں ؟کیا اسٹیبلشمنٹ کوئی نیا کھیل کھیلنے جارہی ہے؟اب پروفیسر صاحب کی شعلہ بیانی کے بعد غیر مرئی خدشہ خطرے کی صورت میں ڈھلتا نظر آتا ہے۔ ہم کس سمت میں بڑھ رہے ہیں؟کیا پروفیسر صاحب اکیلے ہی معرکہ آراء ہوئے ہیں یا کچھ اور طاقتور حلقے ان کی پشت پناہی کررہے ہیں ؟میڈیا کے دانش مندان سوالات پر سوچ سوچ کر ہلکان ہورہے ہیں۔
جس برق رفتار ی سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین صاحب نے قادری صاحب کے پیغام کی حمایت کی ہے وہ بھی چونکا دینے والی ہے، جبکہ خاں صاحب نے قدرے محتاط لہجہ اپنایا ہے لیکن اگر خاں صاحب کی ”نرگسی طبیعت “ پر نظر جائے تو یہ دبی حمایت بھی حیران کن ہے کہ ان کو کسی اور میں بھی کوئی خوبی دکھائی دیتی ہے… لگتا ہے کہ ہم حیرت کدے کے دائمی اسیر ہیں۔ سیاسی رہنما علامہ صاحب کی طرف سے اس وقت کے انتخاب… جبکہ انتخابات سر پر ہیں… پر بھی حیرت زدہ ہیں کہ اگر اُن کو قوم کا درد بے کل کئے ہوئے تھا وہ پہلے دیار ِ غیر میں مراقبہ نشین کیوں رہے ؟ سیاست دان جو مرضی کہیں، ڈاکٹر صاحب نے اپنی دانست میں نہایت موزوں وقت کا انتخاب کیا ہے ۔ اگر اس سے پہلے آتے تو کہا جاتا کہ حکومت کو مدت پوری کرنے دیں تو وہ کارکردگی بھی دکھائے گی اور اگر تھوڑا سا لیٹ ہوجاتے تو بہت تاخیر ہو جاتی ۔ چنانچہ اُن کے لیے دسمبر ہی درست وقت تھا۔ اگرچہ اس اسلامی جمہوریہ میں ڈرامائی سیاسی تبدیلیاں آنا محال ہے لیکن پروفیسر صاحب نے وقت کے پیمانوں کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے جس طرح دھماکہ خیز انداز میں سیاسی بھونچال برپا کر دیا ہے وہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اور ان کو اس کا کریڈٹ بہرکیف دیا جانا چاہیے، لیکن ہمارے ملک میں سیاست دانوں اور دیگر اہم شخصیات کی ایسی ”کارکردگی “ پر شکوک و شبہات پیدا ہوجانا فطری امر ہے کیوں کہ خیال کیا جاتا ہے․․․ اور ماضی بھی اس کا گواہ ہے․․․ کہ کانوں کی بھلی محسوس ہوتی ان دھنوں کا موسیقار کوئی اور ہوتاہے۔ سر ِ آئینہ جس کا عکس نظر آتا ہے ، عام طور پر وہ پس ِ آئینہ نہیں ہوتا۔ اب 23 دسمبر کے جلسے کے بعد شکوک و شبہات کے جن ناگوں نے سر اٹھایا ہے وہ بیٹھنے سے انکاری ہیں۔ پروفیسر صاحب نے میرے دوستوں ، کامران خان اور نجم سیٹھی، کو جو یکے بعد دیگرے انٹرویو دیے، اُن سے بھی فضا صاف نہیں ہوئی ہے۔
اگر یہ صورت ِ حال ماضی میں ہویدا ہوتی تو اب تک ہم نہایت خیر و عافیت سے بھاری بوٹوں کی دھمک اور اس کے ہم قدم ”نظریہ ٴ ضرورت “ کی چاپ سن چکے ہوتے۔ جواز تراشنے میں ہم رشک ِ فرہاد ہیں، تاہم ہماری ”شیریں“ یک سو نہیں ہے ۔ہمارے پاس مہم جوئی کے لیے افراتفری، لاقانونیت، دہشت گردی، بدعنوانی ،معیشت کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ، سیاسی جمود، نااہل سیاست دان ․․․ہو سکتا ہے کہ اس میں کافی زیادہ پراپیگنڈہ ہو مگر کچھ حقیقت بھی ہو گی․․․ سے نجات کا بہانہ موجود ہے اور” قوم کا درد “رکھنے والے مستعد حلقے کل تو کیا پرسوں کا کام بھی آج ہی کرڈالنے کے عادی رہے ہیں۔ ارباب ِ سیاست پر نااہلی اور بدعنوانی کے داغ قابل ِ تشویش ہوتے ہیں اور اس ”گند “ کو صاف کرنا ضروری قومی فریضہ ہے، لیکن آج کے پاکستان کو اس سے بھی زیادہ مہیب خطرات ، جیسا کہ طالبان اور بلوچستان میں زور پکڑتی ہوئی کشیدگی کا سامنا ہے اور خزانہ خالی ہونے کی وجہ سے ضیاء اور مشرف جیسے قومی مسیحا فی الحال مہم جوئی نہیں کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ایک اور فارمولا ، جس کی کچھ آوازیں سنائی دیتی رہتی ہیں ، یہ ہے کہ اس مرتبہ دفاعی ادارے پس ِ منظر میں رہتے ہوئے کسی اور کو میدان میں اتاریں گے۔ پروفیسر صاحب کی دھماکہ خیز انداز میں آمد نے دلوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کہ کہیں اُن کی صورت میں اُس منصوبے کا ”افتتاح “ تو نہیں ہوگیا ؟ایک اور بات، اگر قادری صاحب کی آمد مقتدر طاقتوں کے کسی منصوبے کا حصہ نہیں ہے تو پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اُبال بہت جلد سر د پڑ جائے گا۔ تاہم اگر ایسا نہیں ہے او ر واقعی ، جیسا کہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے، وہ کسی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں تو یہ ایک انتہائی خطرناک اقدام ہو گا۔ اس کا مقصد قوم کو کسی اور تجربے کی بھینٹ چڑھانے کے سوا اورکچھ نہیں ہے۔ کیا پروفیسر صاحب بظاہر کسی کھیل کا حصہ لگتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اُنہوں نے نا دانستگی میں ایک ایسا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیا ہو جس کے وزن کا اُنہیں اندازہ نہ ہو؟یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ”سب جانتے ہوں “اور وہ نہایت سکون سے یہ ہنگامہ بپا کرنے کے لیے تیار ہو گئے ہوں۔ بہرحال یہ ایک الجھا ہوا معاملہ ہے ․․․ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو اور یہ صرف ہمارے خدشات ہی ثابت ہوں، تاہم اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمارے محافظ کیا کرنے جارہے ہیں۔ اگر وہ کسی آلہ ٴ کار کی تلاش میں تھے تو پروفیسر صاحب یقیناً ایک مثالی انتخاب ہیں۔ آج پاکستان میں فصاحت و بلاغت میں اُن کا کوئی ثانی نہیں ہے ، اور پھر وہ خطیب ہی نہیں صاحب ِ قلم بھی ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جس اسلام کی وہ تبلیغ کرتے ہیں․․․ فرقہ واریت، طالبان اور انتہا پسندانہ سوچ کی مخالفت پر مبنی․․․ وہ نہ صرف زیادہ تر پاکستانیوں بلکہ اہل مغرب کے لیے بھی قابل ِ قبول ہے۔ آج ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا قومی ارتقائی عمل رک چکا ہے۔ اس شجر ِ کوتاہ قامت کی نمود کے لیے کوئی کھاد یا پانی دستیاب نہیں ہے۔ سیکولر ازم ، جیسا کہ میں جرأت کرتا رہتا ہوں، کی تبلیغ یہاں بار آور ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ہماری فکری سرزمین اس کی نمو کے لیے بنی ہی نہیں ہے ، چنانچہ اس مایوسی کے عالم میں بہت سے حلقے پروفیسر صاحب کی رواداری کی حامل مذہبی سوچ کے حامی ہیں۔ شاید میں بہت آگے کی سوچ رہا ہوں۔
اپنی تقریر میں پروفیسر صاحب نے ہمارے قومی امراض کی تشخیص کرتے ہوئے جو نسخہ تجویز کیا ہے ، اُس کی سب سے کڑوی گولی چودہ جنوری ، جو بہت نزدیک ہے، کی ڈیڈلائن ہے۔ اگر موجودہ حکومت کو ہٹا کر فرشتوں کی حکومت قائم کرنی ہے تو وہ شاید تمام معاملات سدھار سکیں ، انسانوں کے بس کی بات تو نہیں ہے․․․ اور پروفیسر صاحب نے نہایت آسان اردو میں یہ بات بتا دی ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا وہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کریں گے۔ اگر لاہور کی طرح کا ایک اجتماع اسلام آباد کی سڑکوں پر بھی ہوجائے تو کیا مضائقہ ہے لیکن کیا ہمارے محافظ اس بات کو برداشت کر لیں گے؟یہی اس معاملے کا سب سے نازک پہلو ہے۔ اگر عدلیہ کی بحالی کے لیے 2009 کا لانگ مارچ کچھ یاد دلاتا ہے تو لگتا ہے کہ دفاعی اداروں کی طرف سے مداخلت کا خدشہ لاحق رہے گا۔ آرمی چیف کی طرف سے کوئی پیغام آیا ہو گا اور زرداری صاحب نے حقائق سے آنکھیں چرانا مناسب نہ سمجھا ہوگا۔ اگر ابھی بھی کسی کو ”عوام کی حکومت “ کا زعم ہے تو خوش فہمی کا کوئی علاج نہیں۔ بہت سے دانا کہتے پھرتے ہیں کہ اب جمہوریت کا لگایا ہوا پودا تناور ہو چکا ہے اور اسے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے ، لیکن خواہشات حقائق کو تبدیل نہیں کر سکتیں۔ گزشتہ دو سال سے جس چیز نے جمہوریت کو سنبھالے رکھا وہ آئین اور قانون کی پاسداری نہیں بلکہ ملازمت میں دی گئی ایک تین سالہ توسیع کا کرشمہ تھا۔اگر اُس وقت زرداری صاحب واجب دانائی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہتے تو اب تک بہت کچھ بدل چکا ہوتا۔ کیا ہم تجسس سے بھر پور ڈراموں کے متلاشی نہ تھے کہ جنوری سرد اور اداس گزر رہا تھا؟ شکریہ پروفیسر صاحب، بقول مرزا غالب․․․ ” خوئے تو ہنگامہ زا“، آپ نے بے کلی دور کر دی۔ ہو سکتا ہے کہ اس ڈرامے کا کچھ اور ڈراپ سین بھی نظر وں نے دیکھناہو۔ کون جانتا ہے؟
تازہ ترین