خیال تازہ …شہزادعلی برطانیہ میں حالیہ عرصے میں مجموعی طور پر موسم معتدل رہا تاہم اچانک چند روز سے موسم میں خنکی آرہی ہے وہیں ویسٹ منسٹر کا پارلیمانی اور سیاسی موسم اچانک حدت کا شکار ہوگیا ہے۔ جب کہ پبلک بریگزٹ بند گلی کے باعث فرسٹریشن کا شکار ہورہی ہے۔ پہلے پارلیمنٹ کرسمس ہالیڈیز پرتھی، چھٹیوں کے اختتام کے ساتھ ہی یعنی پارلیمنٹ کے سیشن کا آغاز پر پہ درپے ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جن سے برطانوی پارلیمانی ماحول میں اتار چڑھاؤ محسوسس کیا جاسکتا ہے ۔ گزشتہ منگل کی شب دارالعوام میں وزیراعظم تھریسامے کی ڈیل کے خلاف تاریخ ساز ووٹ پڑے یعنی بھاری اکثریت سے وزیراعظم کے بریگزٹ معاہدہ کو مسترد کردیا گیا جسے وزیراعظم کی ہار سے تعبیر کیا گیاجب کہ اگلی شب کو ہی یعنی بدھ کو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد چاہے صرف 19 ووٹ سے ناکام رہی مگر اسے ان کی کامیابی گردانا جاتا ہے ۔ دو دن کے واقعات یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ برطانیہ کے سیاسی اکابرین میں ابھی ہماری طرح سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نہیں نکلا کہ اپنے لیڈر کی ہر غلط صحیح بات کی تائید نہیں کرتے - وہی ٹوری اور بعض دیگر حکومتی اتحادی ممبران پارلیمنٹ جنہوں نے ایک رات قبل بریگزٹ ڈیل پر وزیراعظم سے اختلاف رائے کو ووٹ ان کی ڈیل کے خلاف دے کر ظاہر کیا مگر اگلی شب کو جب حزب مخالف کی ایماء پر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی ووٹنگ ہوئی تو انہوں نے ان کے حق میں ووٹ ڈالے۔ اور واضح کردیا کہ وہ جس معاملہ پر وزیراعظم کو غلط سمجھیں گے صرف اس پر ان کی کسی تجویز یا ترمیم پر پارلیمنٹ میں ووٹ کے ذریعے اختلاف کریں گے مگر جب ملک کے وزیراعظم کو تبدیل کرنے کی بات کی جائے گی وہ بدستور اپنی لیڈر کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔ کاش ہمارے آبائی ملک کے سیاسی لوگ بھی ان برطانوی اقدار سے کچھ سیکھ سکیں۔ تاہم بریگزٹ افئیرز جس طرح ایک بند گلی میں آکر رک گئے ہیں اور اس بند گلی سے پار جانے کا راستہ نہ تھریسا مے کو نظر آرہا ہے اور نہ ہی جریمی کوربن کو سوجھ رہا ہے اس سے بذات خود جمہوریت پر سوال اٹھ کھڑے ہوے ہیں کہ ضروری نہیں کہ ہر مرتبہ جمہور درست فیصلہ کریں کبھی کسی وقتی ارتعاش کے تحت جذبات کی رو میں غلط فیصلہ بھی کر دیا جاتا ہے جیسا کہ ای یو ریفرنڈم پر کیا گیا کہ اب یہ بریگزٹ گتھی اتنی الجھ گئی ہے کہ دونوں بڑی پارٹیوں کے پارلیمنٹیرین سے بھی نہیں سلجھ رہی۔ وزیراعظم کی ڈیل کے خلاف بھاری ووٹ ڈال کر اسے تو نامنظور کر دیا گیالیکن اس عمل سے کوئی مسئلہ کا حل تو نہ نکل سکا۔ اسی طرح وزیراعظم پر ان کی جماعت اور اتحادیوں نے عدم اعتماد کے ووٹ کو ناکام تو بنا دیا مگر اس سے بھی وزیراعظم کو اس مسئلہ کو بند گلی سے نکالنے کی کنجی نہیں ملی اور اس حوالے پولیٹیکل ڈیڈ لاک بدستور برقرار ہے۔ہفتہ رواں کے آغاز پر وزیراعظم نے اپنا پلان بی پیش کیا جس میں ایک ٹھوس نقطہ ای یو باشندوں کے لئے بریگزٹ کے بعد برطانیہ میں قیام کے اپلائی کرنے کی 65 پونڈ فیس سے استثنی تھالیکن ان کے مکمل پلان کو حزب مخالف کے بڑے لیڈر جیرمی کوربن کی پزیرائی نہیں مل سکی ۔ ان کا دعوی تھا کہ پلان بی پلان اے کی مانند ہی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے یورپ کے ساتھ اگریمنٹ کے گزشتہ ہفتے کامنز سے مسترد کیے جانے کے بعد ایک زیادہ بہتر اپروچ اختیار کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ بدستور ممبران پارلیمنٹ پر یہ زور دیتی رہیں کہ ایکُ نو ڈیل سے بچنے کے لیے وہ لازمی طور پر ان کی حمایت کریں۔منگل کے دی میٹرو لندن کے مطابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ کراس پارٹی گفت وشنید کے بعد برسلز نئے پرپوزلز کے ساتھ جائیں گی لیکن لیبر لیڈر نے واضح کیا کہ وزیراعظم اس حوالے تیار نظر نہیں دکھائی دیتیں انہوں نے گزشتہ روز کامنز میں یہ استفسار کیا کہ کس بنا پر وہ یہ خیال کرتی ہیں کہ وہ جنوری میں اسی دوبارہ بات چیت بنیاد پر کیا کامیاب ہوجائیں گی جو وہ دسمبر میں آزما چکی ہیں ۔ فنانشل ٹائمز ویک اینڈ میں مائیکل میک نیزے نے دی لانگ ویو میں یہ نشاندہی کی ہے کہ بریگزٹ کی بے ترتیب ابتر کہانی برطانوی پونڈ، سٹاکس اور ملک کی ریپوٹیشن کو نشانہ بنا رہی ہے جارج پارکر، لاورا ہیوجز اور سولیپ الاٹائیز نے سیاسی تعطیل ، پولیٹیکل ڈیڈ لاک انتخابات کی بات کو چنگاری مہیا کرتا ہے کے عنوان سے ایک سیناریو یہ پیش کیا ہے کہ (یہ بھی ممکن ہے ) کہ لیبر لیڈر جیرمی کوربن وزیراعظم کی ڈیل کو مئی میں پول کے بدلے حمایت کردیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ ہر چند کہ تھریسا مے نے اس ہفتے یہ ڈکلیئر کیا ہے کہ بریگزٹ پر ایک قبل ازوقت الیکشن قومی مفاد میں نہیں لیکن گزشتہ منگل کی بھاری شکست کے بعد وزراء اور سینئر زعماء پولیٹیکل ڈیڈ لاک توڑنے کے لیے ایک الیکشن کے انعقاد کو بھی زیرغور لاررہے ہیں جب کہ ویسٹ منسٹر میں زیر بحث لائے گئے ایک اور سیناریو کے تحت وزیراعظم مسٹر کوربن کو مئی میں الیکشن کے وعدے پر اس وقت ان یورپ سے انخلا کے معاہدے کی حمایت کا کہہ سکتی ہیں ایسا الیکشن ٹوریز ممکن ہے کہ ایک نئی لیڈرشپ کے تحت لیبر کے خلاف بریگزٹ کے نئے سٹیج کے لیے تازہ مینڈیٹ کے لیے لڑیں ۔ تازہ پول یہ رحجان بھی ظاہر کر تے ہیں کہ کزروٹیو اور لیبر قریب قریب جارہے ہیں بعض بلکہ مسز مے کی پارٹی کی لیڈ ظاہر کر رہے ہیں البتہ قبل ازوقت انتخابات کے حوالے کمزرویٹیو محدود طور پر پرجوش ہیں جب کہ دی مرسی سائیڈ بارو آف ناوزلے سے ولیم والیس رقمطراز ہیں کہ بریگزٹ پر ڈبیٹ اور معاملہ کے ایک بند گلی پر رک جانے سےاس علاقے کی کمیونٹی فراسٹریشن کا شکار ہورہی ہے (ناوزلے صرف ایک مثال ہے ورنہ ملک بھر میں لوگ بریگزٹ ساگا پر اب شدید ذہنی کوفت میں مبتلا ہورہے ہیں ) جب کہ ناوزلے میں ورکنگ کلاس لوگ دونوں مین پارٹیز کے خلاف غصے کا اظہار کر رہے ہیں ۔ (کیونکہ یہ بریگزٹ پر سیاسی تعطل دور کرنے میں ناکام رہی ہیں)۔ جب 2106 میں ریفرنڈم ہوا تھا تو ناوزلے سے 52 فیصد ووٹ یورپ چھوڑنے اور 48 فیصد ساتھ رہنے کے پڑے تھے یعنی گویا کہ اس علاقے نے نے برطانیہ کے ایک آئینہ کا کردار ادا کیا تھا۔ یہاں پر اب ای یو پر طاری جمود پر لوگوں میں سخت جذبات پائے جاتے ہیں۔ ایک 65 سالہ شہری کے تاثرات بیان کیے گئے ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ تھریسا مے کی ڈیل کے خلاف پڑنے والے ووٹ اور سخت شکست پر حیران نہیں ہوئے کیونکہ وہ تمام وقت ڈبل ڈیلنگ کرتی چلی آرہی تھیں۔ ایک دلچسپ تبصرہ یہ تھا کہ یہ ایسا ہے کہ جیسے وزیراعظم کی پشت پر کوئی چابی لگی ہے اور کوئی مسلسل اس کو گھما رہا ہے مسز مے کو اس ہفتے مستعفی ہوکر دوسروں کو موقع دینا چاہیے تھا کہ وہ کوئی راستہ تلاش کریں جس سے کہ 29 مارچ سے قبل برطانیہ کے یورپی یونین سے کریش آوٹ ہوکر نکلنے کو روکا جاسکے ۔ کیونکہ اگر کسی معاہدے پر نہ متفق ہوئے تو اس رات کے گیارہ بجے کے بعد برطانیہ یورپی یونین کا ممبر نہیں رہے گا۔ تو بات ہورہی تھی ناوزلے بارو کی گلیوں میں لوگوں میں جو زیادہ سخت احساسات پائے جاتے ہیں ، وہ بریگزٹ پر موجودہ جمود کی صورت حال اور اسے ایک بند گلی میں دھکیلنے پر عمومی طور پر سیاسی زعماء پرغصہ اور صورت حال پر فراسٹریشن ہے جسے ایک رہائشی کے نقطہ نظر کو اس کے جذبات میں اس طرح بیان کیا گیا ہے “میں فقط دو پارٹیوں کو دیکھ کر فیڈاپ fed up ہوں ..” یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اب اس علاقے کے لوگوں کے بریگزٹ پر خیالات میں خاصی تبدیلی نوٹ کی گئی ہے گزشتہ سال یوگوو YouGov کے ایک پول میں یہ بات سامنے آئی کہ ناوزلے بارو میں اب یورپ کے ساتھ رہنے کی طرف حمایت بڑھی ہے۔ یہ بھی رپورٹ کیا گیا ہے کہ اس کونسل کا نصف بجٹ کم کردیا گیا نو سال سے اس کونسل کو فنڈز میں کٹوتیوں کا سامنا ہے ۔ دو ہزار ملازمتوں سے لوگ محروم ہوگئے۔ یہ بات کونسل لیڈر گراہم مورگن نے بتائی۔ بجٹ کٹوتیوں کا اس کونسل کی سوشل کئیر اور میونسپل سروسز پر بہت گہرا اثر پڑا ہے۔ باوجود اس کے کہ اس بارو کے بعض حصے پسماندہ حلقے تھے مگر کٹوتیاں پھر بھی کر دی گئیں۔ ناوزلے بارو کے بعض باشندوں میں یہ خوف اور خدشات پائے جاتے ہیں کہ اگر بریگزٹ ہوگیا تو یہ کونسل مزید خسارے کا نشانہ بنے گی جب کہ 126 کمپنیوں میں سے صرف 8 فیصد نے ایک سروے میں کہا کہ ان کے کاروبار پر بریگزٹ کا مثبت اثر مرتب ہوگا بالفاظ دیگر واضح اکثریت کو یورپ سے برطانیہ کے انخلاء میں اپنے کاروبار میں گھاٹا نظر آرہا ہے۔ خیال رہے کہ کٹوتیاں برطانیہ بھر میں جاری ہیں اور اوپر بالا کونسل کی طرح بے شمار دیگر کونسلیں جو پہلے سے کٹوتیوں کے باعث کئی اہم سروسز کو بند کرنے پر مجبور ہوئی ہیں وہ بریگزٹ کی صورت میں مزید خسارے سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ جبکہ بریگزٹ پر بند گلی میں پھنس جانے پر لوگوں کی تشویش بڑھتی جارہی ہے۔ بریگزٹ بند گلی سے پار ہونے کیلئے فنانشل ٹائمز میں ڈاؤننگ سٹریٹ کی سابق ہیڈ آف پالیسی یونٹ اور ہارورڈ کینیڈی سکول کی سنئیر فیلو کامیلا کیونڈیش نے اپنے کالم میں یہ کامنز میں وزیراعظم کی ڈیل کی شکست سے ہر چیز کو تبدیل ہوجانا چاہئے تھا لیکن بدستور دونوں بڑی جماعتوں کے لیڈرز ریورس گئیر لگاتے دکھائی نہیں دیتے اس تناظر میں انہوں نے یہ صائب رائے دی ہے کہ پیش رفت کیلئے ایک کراس ۔ پارٹی حل ہی واحد راستہ ہے ہمارے خیال میں اگر جلد از جلد پارلیمنٹ کی مشترکہ ذہانت کے ذریعے اس مسئلہ کا حل تلاش نہ کیا گیا تو آنے والے دن ویسٹ منسٹر کی پالیٹیکس میں مزید حدت کو ہوا دیں گے۔