• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دھڑکتی ہوئی یادوں اور جھلملاتی امیدوں کے سنگم پر ، ایک اور نیا سال ہمارے سامنے ہے۔ ہم اس کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ نیا سال دوسرے ملکوں میں جس دھوم دھام اور شادمانی کے ساتھ منایا جاتا ہے اس کی اب ہمارے یہاں کوئی گنجائش نہیں رہی ہے۔ یوں بھی ہم اپنے دکھوں اور اپنے مصائب سے اتنے افسردہ ہیں کہ کسی اجتماعی جشن کا تصور مشکل ہے۔ بھارت سے کرکٹ میچ جیت کر ڈھول بجانا اور بھنگڑا ڈالنا جائز سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن نئے سال کی تقریبات کی چند ڈنڈا بردار حلقوں کی طرف سے جو مخالفت کی جاتی ہے اور خوشی کے پرزور اظہار کو روکنے کے لئے جو سرکاری انتظامات کئے جاتے ہیں وہ ایک ایسی روش کی علامت ہیں کہ جو ہمیں ذہنی اور ثقافتی معنوں میںآ گے بڑھنے سے روک رہی ہے۔
سالوں سے میں کراچی میں نئے سال کی آمد کے جو مناظر دیکھتا رہا ہوں وہ کسی حد تک اس بات کا ثبوت ہیں کہ کہیں ہمارا معاشرہ انتہا پسندی، عدم برداشت اور بدتہذیبی سے ٹوٹتا اور بکھرتا جا رہا ہے۔ صورت حال کتنی تیزی سے خراب ہوئی ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ابھی دس پندرہ سال پہلے بھی ، لاہور میں بسنت کا تہوار کتنے مزے سے منایا جاتا تھا۔ کیسے آبادی کے تمام طبقے اس میں شریک ہوتے تھے۔ ایک روایت تھی کہ جو زندگی کی قوت نمو کا اظہار تھی۔ مجھے دو تین بار، اس تہوار کی سرگرمیوں میں شرکت کرنے کا تجربہ ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ اب وہ سب کچھ ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ ہم مل جل کر ، بیوقوفی کے ساتھ، سرعام خوشی منانے کی صلاحیت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ سوچ کر خوف آتا ہے کہ یہ بندشیں کیسے ہماری ترقی اور خوشحالی کے راستے میں بھی رکاوٹ بن رہی ہیں۔
جو موضوع میں نے چھیڑا ہے، اس کا متنازعہ ہونا واضح ہے بہت لوگ ایسے ہیں کہ جو نئے سال کے منانے کو مغربی بے راہ روی کا ایک گھناؤنا کھیل سمجھتے ہیں۔ایک طبقے کی سوچ یہ بھی ہے کہ ہمارا مذہب ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم اس قسم کی رنگ رلیوں میں اپنا وقت ضائع کریں۔ ایک سرے پر طالبان کی سوچ بھی بندوق ہاتھ میں لئے کھڑی ہے کہ خبردار، کسی قسم کی ایسی تقریب کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ جس سے زندگی کی بوریت میں کمی آئے اور انسان فنون لطیفہ یا محض کھیل کود سے لطف حاصل کر سکے۔ تاکید یہ کی جاتی ہے کہ پارسائی کی زندگی اختیار کی جائے اور جو ایک فطری جذبہ ہوتا ہے، ہنسنے بولنے اور خوش ہونے کا اس پر قابو پایا جائے۔ میں یہ مانتا ہوں کہ دوسرے سرے پر ، ایک بہت چھوٹے طبقے کی سرمستیاں قابل اعتراض سمجھی جا سکتی ہیں گو انہیں بھی تشدد کے ذریعے روکنا، معاشرے کی بدنظمی کو زیادہ خونخوار بنانا ہے۔ اصل مسئلہ عوام کا ہے جو صدیوں سے روایتی ہتھیاروں اور میلوں اور اجتماعات سے اپنی دشوار زندگی میں ایک رنگ پیدا کرتے رہے ہیں۔ انہیں تہواروں میں اعلیٰ درجے کی فن کاری کی عکاسی بھی ہو جاتی ہے۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ زندگی کو جینے کے قابل بنانے کے لئے حسن کی تہذیب کی، مسرت کی اور لطف کی ضرورت ہے۔ مہذب ہونے کی بھی کچھ شرائط ہیں کہ جن میں ادب، مصوری ، رقص و موسیقی اور انسان کی دوسری تخلیقی صفات کا عمل دخل ضروری ہے۔ ہم ایک ویران اور بدصورت زندگی کے اسیر کیوں رہیں۔
ظاہر ہے میں ان تہواروں کا ذکر کر رہا ہوں، جو بنیادی طور پر مذہبی نہیں ہیں۔ یا جو قدیم زمانوں سے چلے آ رہے ہیں۔ میں نے لاہور کی بسنت کا ذکر کیا ۔ بہار کی آمد کے جشن مختلف تہذیبوں اور معاشروں میں اپنے اپنے انداز سے منائے جاتے ہیں۔ ایران اور دنیا کے کئی دوسرے ملکوں میں نیا سال شروع ہی بہار کی آمد سے ہوتا ہے اور اسے نوروز کہتے ہیں۔ یہ اس دن یعنی 21مارچ کو منایا جاتا ہے جب دن اور رات وقت کے اعتبار سے بالکل برابر ہوجاتے ہیں۔ ایران کی مثال بہت برمحل ہے کیونکہ اس ملک کی ایک قدیم تہذیب بھی ہے اور یہ اسلامی بھی ہے۔ جب1979میں ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں انقلاب آیا تو وہ فروری کا مہینہ تھا ۔ جلد ہی جب نوروز آیا تو کئی مذہبی رہنماؤں نے کہا کہ اس کی تقریبات تو غیر اسلامی ہوتی ہیں اسلئے ان پر پابندی لگنا چاہئے۔ کافی بحث ہوئی۔ تقریبات بھی دبی دبی رہیں۔ لیکن اگلے سال تک اس دلیل نے فوقیت حاصل کر لی کہ یہ تو ہماری تہذیب کا حصہ ہیں اور عوام کی زندگی میں شامل ہیں۔1980ء میں نو روز کیسے منایا گیا اس کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ میں ایرانی مجلس کے انتخابات کی رپورٹنگ کے لئے تہران میں تھا اور نوروز کی ایک ہفتے سے زیادہ جاری رہنے والی چھٹیوں کے دوران میں وہیں تھا۔ نوروز سال کا سب سے بڑا تہوار ہوتا ہے اور اس میں کئی رسومات ایسی ہوتی ہیں جنہیں آپ واقعی کافرانہ قرار دیں۔ مثلاً ایک رسم ہوتی ہے جسے چہار شنبہ سوری کہا جاتا ہے۔ سال کے آخری بدھ سے پہلے کی رات ، سڑکوں پر الاؤ روشن ہوتے ہیں اور لوگ ”بیشتر نوجوان“ ان پر سے چھلانگ لگاتے ہیں۔ جیسے ایک سال کی لغزش آگ میں جل کر بھسم ہو گئیں ۔یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ جسے ہم کلچر کہتے ہیں اس پر مذہب کا مکمل غلبہ نہیں ہوتا اسی لئے تو دنیا کے مختلف علاقوں میں رہنے والوں کے رسم و رواج مختلف ہوتے ہیں جبکہ وہ ایک ہی مذہب کے پیروکار ہو سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی زندگی کے طریقے عربوں سے ،ایرانیوں سے، مشرق بعید کے مسلمانوں سے مختلف ہیں۔
خیر یہ تو ایک اور بحث ہے۔ میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ہماری اجتماعی زندگی میں ہنسنے بو لنے، کھیل کودنے، خوش ہونے کے مواقع بہت کم ہیں اور ان پر مزید پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔ گھٹن اور خوف کی اس زندگی سے تخلیق اور نمو کی قوتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اچھی تفریح،موسیقی کی طرح، روح کی غذا ہوتی ہے۔ جن تہواروں اور تقریبات کا میں ذکر کر رہا ہوں ان کی ایک عوامی شکل ہوتی ہے۔ہر خاص و عام اس میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ اجتماع سماجی زندگی میں توازن پیدا کرتے ہیں۔ لوگ مل جل کر کوئی کام کریں۔ کسی جشن میں شامل ہوں ،کسی اور سرگرمی کا حصہ ہوں ، خواہ وہ سیاسی نوعیت کی کیوں نہ ہو تو اس سے امن اور اخوت کا احساس فروغ پاتا ہے۔ فرد کو اجتماع میں شامل ہونے سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ہم ایک ایسے بدنصیب ماحول کے قیدی بن گئے ہیں کہ جس میں لوگ گروہوں، فرقوں اور جماعتوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
نئے سال کی تقریبات مغربی ملکوں میں جس طرح منائی جاتی ہیں اس کا علم ہمیں میڈیا کے ذریعے ہو جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین اور جاپان میں نئے سال کو کہیں زیادہ جوش وخروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ جاپان کا نیا سال وہی ہے جو مغربی دنیا کا ہے۔ یعنی ان کی جنتری وہی ہے جس سے ہم اپنی کاروباری اور دنیاوی زندگی کو ناپتے ہیں۔ چین کی جنتری مختلف ہے اور چاند کی تاریخوں سے بھی اس کا تعلق ہے۔ اس سال چینی سال23جنوری کو منایا جائے گا ۔ بارہ مہینوں کی طرح، بارہ سالوں کا ایک سلسلہ ہے جن کے نام جانوروں سے منسوب ہیں۔ جو نیا سال آ رہا ہے وہ سانپ کا سال ہے۔ یہ کتنی شان و شوکت سے منایا جا سکتا ہے اس کا ہم مشکل سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں اس کی ایک جھلک ہم ضرور ٹیلی ویژن پر دیکھیں گے۔ ویسے ان تقریبات کی سماجی اور ذاتی وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔ یہ ایک موقع ہے اپنے روز و شب کے حساب کا۔ یہ سوچنے کا کہ گزرا ہوا سال کیسا تھا اور آنے والے سال سے ہم کیا امیدیں قائم کریں۔ نئے سال کے عہدو پیمان کی بھی ایک رسم ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ عہد عام طور پر توڑنے کے لئے ہی کئے جاتے ہیں۔ اپنے آپ سے جو وعدے کئے جاتے ہیں وہ اکثر پورے نہیں ہوتے۔ پھر بھی، یہ عہد، یہ وعدے، ایک بہتر اور کامیاب زندگی کی آرزو کی غمازی کرتے ہیں۔ تو آپ کیا وعدہ کر رہے ہیں اپنے آپ سے؟ کیا یہ کہ خوش ہونا ، دوسروں سے محبت کرنا اور امن و آشتی کے ساتھ زندہ رہناسیکھیں گے ؟
تازہ ترین