• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسرت راشدی

ترقی و فلاح میں خواتین کے فعال کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں میں خواتین کا عمل دخل بڑھتا جا رہا ہے۔
کوئی بھی شعبہ ہو پاکستانی خواتین کسی سے پیچھے نہیں ،نہ صرف اپنے ملک ،بلکہ بیرون ممالک میں بھی متعدد بڑے با اثر عہدوں پر فائز ہیں اور اپنے ملک کی عزت اور وقار میں اضافہ کررہی ہیں۔ 2018میں مختلف ممالک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے والی چند پاکستانی خواتین کے بارے میں ملاحظہ کیجیے۔

٭فوزیہ فیاض سعودی عرب میں پہلی پاکستانی خاتون سفارت کار

غیر ملکی دفتری کارروائیوں کے لیے گزشتہ 70دہائیوں کے دوران سعودی عرب میں کوئی خاتون سفارت کار تعینات نہیں کی گئی تھی۔ فوزیہ فیاض سعودی عرب میں سفارتی خدمت انجام دینے والی پہلی خاتون سفیر ہیں، وہ کئی ماہ سے جدہ قونصلیٹ میں اپنی ذمےداریاں سنبھالے ہوئے ہیں ۔

فوزیہ فیاض جنوبی پنجاب و سرائیکی خطے سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا پھر وفاقی پبلک سروس کمیشن (ایف پی پی سی) اور اسلام آباد کی طرف سے منعقد سینٹرل سپیرئیر سروس امتحان (سی ایس ایس) پاس کیا بعدازاں پاکستان کے غیر ملکی سروس میں شرکت کی۔ ان کی پہلی تقرری واشنگٹن ڈی سی میں ہوئی تھی، پھر انہیں بھارت نئی دہلی میں تعینات کر دیا گیا۔سعودی عرب میں ان کی تیسری سفارتی پوسٹنگ ہے۔ قونصل میں ان کی موجودگی سے خواتین کو بالخصوص پاسپورٹ، شناختی کارڈ کی تجدید و توسیع، سفری دستاویزات کی فراہمی میںآسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔

٭ پاکستانی خاتون نسیم ایوب برطانیہ کے شہر لوٹن کی میئر منتخب

2018میں لوٹن میں پہلی مسلمان خاتون میئر بننے کا اعزاز پاکستان کی نسیم ایوب نے حاصل کیا۔ ان سے قبل میئر کے عہدے پر ان کے شوہر میاں چوہدری ایوب تھے۔ لوٹن کی ایک سو بیالیس سالہ تاریخ میںکوئی خاتون میئر منتخب نہیں ہوئی تھی ۔ یہ نسیم ایوب ہیں، جنہوں نے یہ اعزاز حاصل کیا۔ ان دونوں میاں بیوی کا تعلق مدینہ المساجد گلہار شریف کوٹلی سے ہے۔ وہ آزاد کشمیر کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئیں اور مذہبی ماحول میں پروان چڑھیں، انہوں نے بطور کونسلر گھریلو تشدد کے خلاف وائٹ ربن مہم چلائی ،جس کو قومی سطح پر مقبولیت حاصل ہوئی۔ خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کےلئے مثالی جدوجہد کرکےمردوں کے بالا دست معاشرے میں عملی سیاست میں حصہ لے کر نئی تاریخ رقم کی اور کامیابی حاصل کی۔

٭پاکستانی نژاد برطانوی خاتون نے ممبر آف برٹش ایمپائر (ایم بی ای) کا اعزاز حاصل کیا

سعدی خان برطانیہ کی ایک نہ صرف مقامی بزنس ویمن ہیں بلکہ وہ چیئرٹی ویمنز ایڈ کی ایمبسیڈر بھی ہیں،انہوں نے خواتین کےلئے آواز اٹھائی اور’’ تشدد برداشت نہ کرو ‘‘کے سلوگن کے ساتھ خواتین کو بااختیار بنانےکےلئے کوششیں کیں، انہوں نے کمزور خواتین کے لئے مذہبی و ثقافتی ٹریننگ پروگرام شروع کیا اور ذاتی طور پر بھی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان کی اس کاوش کی وجہ سے ملکہ برطانیہ نے سعدی خان کو (ایم بی ای) سے نوازا اوربکنگھم پیلس میں پرنس ولیم نے انہیں ایوارڈ دیا۔ انہوں نے اپنے اس اعزاز کو ان تمام خواتین کے نام کر دیا، جنہوں نے تشدد برداشت کرکے اپنے آپ کو تبدیل کیا اور ہمت سے اس کا مقابلہ کیا۔

٭ مہرین فاروقی آسٹریلیا میں سینیٹر منتخب

پاکستان میں پیدا ہونے والی مہرین فاروقی آسٹریلیا کی سینیٹر بننے والی پہلی مسلم خاتون ہیں۔ اس سے قبل وہ نیو سائوتھ ویلز قانون ساز کونسل کی رکن رہ چکی ہیں ، انہوں نے پاکستان سے 1988میں یو ای ٹی سے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ 1992ء میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ آسٹریلیا کے شہر سڈنی منتقل ہو گئیں،جہاں انہوں نے ماسٹرز آف انجینئرنگ سائنس کی ڈگر ی حاصل کی۔ اس کے بعد انوائرمنٹل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کیا۔ 2004ء میں وہ آسٹریلین گرینز پارٹی میں شامل ہو گئیں، انہوں نے دو دفعہ قانون ساز اسمبلی کے لئے الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکیں۔ 2013ء میں وہ آسٹریلین پارلیمنٹ کی پہلی خاتون رکن منتخب ہو ئیں اوراب2018ء سےآسٹریلوی سینیٹ کی رکن بن گئیں ہیں۔ یہ ہمارے ملک کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔

٭برطانیہ کی تاریخ میں پہلی پاکستانی نژاد خاتون وزیر ٹرانسپورٹ

پاکستانی نژاد برطانوی پارلیمینٹرین نصرت غنی نے برطانیہ کی تاریخ میں پہلی مسلمان خاتون وزیرِ ٹرانسپورٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس سے قبل بھی برطانیہ میں کئی پاکستانی نژاد مسلمان سیاستدان برطانیہ کے کئی اہم سرکاری عہدوں پر تعینات ہونے کے اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ وزیرِ ٹرانسپورٹ وہاں کی اہم ترین وزارتوں میں سے ایک ہے۔

وہ لمحہ نہ صرف نصرت غنی کے کشمیری والدین کے لئے انبساط اور افتخار کا باعث تھا، بلکہ برطانیہ میں رہنے والے پاکستانیوں کے لئے بھی شادمانی کا باعث تھا،جب برطانوی پارلیمنٹ کے دارالعوام میں ڈسپیچ بکس پر آکر،انہوںنے ایوان سے خطاب کیا۔ اس سے قبل گزشتہ برس جون میں ہونے والے انتخابات میں ویلڈن حلقے سے کامیاب ہونے کے بعد نصرت غنی نے ملکہ ایلزبتھ دوم کی موجودگی میں اردو میں حلف لے کر تاریخ رقم کی تھی۔وہ برطانوی حکومت کی مختلف معاملات پربنی خصوصی کمیٹیوںمیں بھی بطور رکن کام کر چکی ہیں، انہوں نے سیاست میں آنے سے پہلے برطانیہ کے نشریاتی ادارے بی بی سی ورلڈ کے ساتھ بھی کام کیا، ان کا تعلق برطانوی حکمران جماعت کنزرویٹو سے ہے۔ ان کی تقرری کوکئی برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان نے خوش آئند قرار دیاہے۔

٭پاکستانی نژاد ڈاکٹر روبینہ شاہ گریٹر مانچسٹر کی ہائی شیرف مقرر

برطانیہ میں بسنے والے پاکستانی مختلف شعبہ ہائے جات میں نمایاں کارنامے سر انجام دے رہے ہیں اس کی تازہ ترین مثال یونیورسٹی آف مانچسٹر کی گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ و لیکچرار ڈاکٹر روبینہ شاہ کی ہے،ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ پیشے کے لحاظ سے وہ مانچسٹر یونیورسٹی کی سینئر لیکچرار ،چارٹرڈ کنسلٹنٹ ماہر نفسیات اور یونیورسٹی ڈبل ڈے سینٹر کی ڈائریکٹر بھی ہیں،ان کی خدمات کی بدولت ملکہ برطانیہ نے انہیں ہائی شیرف مقرر کیا۔ڈاکٹرروبینہ شاہ یہ ا عزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی نژاد برطانوی خاتون ہیں۔علاوہ ازیں پاکستان یونین ناروے کی جانب سے2018میںاوسلو میں ایک ایوارڈ تقریب کا انعقادہوا، جس میں ناروے کے وزیر ثقافت ٹرائن اسکائی گرینڈنے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔تقریب میں ڈاکٹر روبینہ شاہ کو متحدہ ریاست کے لیے بہترین رضاکارانہ خدمات انجام دینے پر خصوصی اعزاز سے نوازا گیا۔

تازہ ترین