• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی شہادت کاپانچواں برس بیت چکا۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جس سنساتی گولی نے پاکستانیوں کے آدرشوں کی چادرلہولہان کی تھی ، اس لہو کے چھینٹے لاکھوں پاکستانیوں کی روحوں پہ جم کے رہ گئے۔ پانچ برس بعد بھی پاکستان بظاہر ویسے کا ویسا ہی دکھائی دیتا ہے جیسا بی بی کے دم رخصت تھا پھربھی ہم ایک فیصلہ کن ارتقا کی خیرہ کن کامیابی کا مشاہدہ کرسکتے ہیں ۔صدرآصف علی زرداری کی منتخب قیادت میں موجودہ سول جمہوری حکومت اپنی آئینی تکمیل کا یہ سفر امن کی آشا تلے تقریباً سو فیصد طے کرچکی۔ خون توبے پناہ بہا اوربہہ رہا ہے مگر اس المیے کا رشتہ 80کی دہائی سے پاکستان کی خاکی اورغیر خاکی خفیہ ایجنسیوں کے پوشیدہ اسلامسٹوں اور پاکستان کی دینی و مذہبی جماعتوں کے نظریاتی سفرکی انتہا پسندیوں سے ہے جس نے وطن کی دھرتی کے ہر ذرے کے اوپر بندوق کی نوک چبھو رکھی ہے۔ صرف وقت ہی ان سے پاکستان اور پاکستانیوں کی جان چھڑا سکتا ہے۔ انسانی جدوجہد ان لوگوں اور جماعتوں کی دہکائی ہوئی آگ بجھا نے میں چڑیا کی چونچ سے ٹپکے ہوئے پانی کے ایک قطرے سے زیادہ کوئی کردار ادا نہیں کرسکتی۔
27 دسمبر 2007 کی جس شام جس مائنڈ سیٹ نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے مظلوم خون کی قربانی وصول کی بی بی کے ذہن میں اس کی مکمل تصویر نقش تھی۔ انہوں نے شہادت سے کچھ دیر پہلے اسی لئے پاکستانیوں سے استفسار کیا ”کیا پاکستان بچاؤگے؟“ جس پر پاکستانی جم غفیر کے اس جوابی للکارے سے امید کا دامن بھر گیا تھا ”ہاں! بچائیں گے۔“ ان پانچ برسوں میں عام پاکستانی نے اس انسانیت دشمن نیک گردی کے خلاف اپنی اجتماعی لاتعلقی سے اپنا وعدہ پورا کیا، پاکستان کی ایک سیاسی جماعت اے این پی کو توتحفظ پاکستان کی اس جان لیوا وادی کے مسافروں کا قافلہ سالار کہا جاسکتاہے۔بی بی شہید کے قاتل کون ہیں؟ ان سے وابستہ وصیت سوالیہ نشان ہے؟ ڈائس پراشارہ بازی میں مصروف کردار کی نشاندہی کیوں نہیں کی جاتی؟ بی بی کے بعد پارٹی کو مفاہمت کے نام پر دوسری جماعتوں کایرغمالی بنا دیا گیا ہے؟ یہ ہماری نہیں امریکہ کی جنگ ہے؟ قومی انتخابات کے انعقاد سے پہلے آئینی تقاضوں کی ”آئینیت اور دستوریت“ مکمل کی جائے؟ نگران حکومت کے قیام میں دونوں جماعتوں کے ”مک مکا“ کے بجائے تمام سٹیک ہولڈرز بشمول”فوج اور عدلیہ“ کے قومی اتفاق رائے پر عمل کریں۔ بصورت ِ دیگر 10جنوری زیادہ دور نہیں؟ یہ الیکشن ملک کی تاریخ کے خونی ترین الیکشن ہوں گے؟ بطور قوم ہمیں ایسے اوراسی قسم کے دیگر تمام سوالات کے نرغے میں نہیں آنا نہ ہی اپنے قومی جمہوری سفرکی رفتار ایسے سوالوں کے متعین جوابات سے مشروط کرنی ہے۔ ان نکتہ طرازیوں کے خالقوں کی مین سٹریم عوامی ووٹ کے ان درانتی باز غارت گروں پر مشتمل ہے جو ایک پروسیس کے نتیجے میں ووٹ کی طاقت سے تبدیلی کی منزل کھوٹی کرناچاہتے ہیں!
بی بی تمام عمر دراصل اپنی جرأت مند، خوددار، قوم پرست شخصیت اور عوام پر بھروسے کے ہتھیاروں سے لیس، شر اور انسانی تباہی کی قوتوں سے نبردآزما رہیں۔وہ اس انسانی معاشرے میں فعال کرداراداکرنے کیلئے کوشاں تھیں جس میں خواتین کیلئے اعلیٰ تعلیم ابھی بھی ایک طعنہ ہے۔ قومی سیاست میں وارد ہونے سے لے کر لمحہ ٴ شہادت تک وہ ان بیسیوں قلمکاروں کی زدمیں رہیں جو ان سے حوالہ در حوالہ نفرتوں کا جواز رکھتے تھے۔ مذہبی جنونی اورمڈل کلاسئے سفید پوش ان کے بے طرح دشمن رہے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی، بدلے ہوئے سماجی کلچر، تباہ شدہ ریاستی نظام، ہوس زر میں مبتلا اکثریت اور مرد اجارہ داری کی قیدی معاشرت میں تن تنہاایک خاتون کیسے انقلاب برپا کرسکتی ہے یا اسے کس خارزار سے گزرنا پڑ سکتاہے۔ باپ نے بیٹی کو لکھا تھا ”میری بیٹی جواہرلال نہرو کی بیٹی کے مقابلے میں کہیں بہترہے۔ اندرا نے تیرہ سال کی عمر میں اس زمانے کی سیاست میں اپنا کرداراداکیا تھا لیکن تب تک وہ سیاست کی آگ میں سے ہوکر نہیں گزری تھی جبکہ تمہارے گرد یہ آگ اوائل ہی میں جلا دی گئی ہے۔ یہ آگ تباہ کن اور ہولناک ہے اس لئے بہت زیادہ فرق ہے تم دونوں میں بلکہ میرے نزدیک دونوں ناقابل موازنہ ہیں۔ اگر کوئی مماثلت ہے تویہ کہ تم بھی اندرا کی طرح تاریخ بنارہی ہو۔“ ذوالفقار علی بھٹو ہی نے یہ بھی کہا تھا ”مجھے اگر کسی طریقے سے سیاست کے میدان سے ہٹا دیا گیاتو مجھے یقین ہے کہ میرے مقابلے میں تم زیادہ بہترطورپریہ جنگ لڑ سکو گی۔ تمہاری تقاریر، میری تقاریر کے مقابلے میں زیادہ فصیح و بلیغ ہوں گی۔ تمہاری جدوجہد میں زیادہ توانائی اور جدوجہد کا جوش ہوگا۔ تمہارے اقدامات زیادہ جرأت مندانہ ہوں گے۔“ محترمہ اس خراج تحسین کا سو فیصد مجسمہ ثابت ہوئیں۔بی بی کی شہادت کے پانچویں برس، شریک چیئرمین صدر آصف علی زرداری نے قیادت کی امانت اصل حقدارکو سونپ دی ۔ اب چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری ہیں! چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کو ایک ایسے ملک کیلئے اپنی زندگی وقف کرنی ہے ۔پاکستان پیپلزپارٹی کے ریسرچ سکالر ضیا کھوکھر جیسے مقتدر دانشوروں کو چوہدری نثار کے اس اعتراض پر اپنا دل نہیں دُکھانا چاہئے کہ ”صدر نے کسی سرکاری منصب کے بغیر بلاول کو ڈی ایٹ کانفرنس میں شریک کیا۔ مختلف ممالک کے سربراہان سے ملوایا،“ چوہدری نثار علی تاریخی سفر کے پچھواڑا ہیں جبکہ بلاول اس سفر کے اسپ تازی کا شہ سوار۔مقابلہ بنتا ہی نہیں!
تازہ ترین